کیافرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ اگر کوئی اعتکاف میں روزہ نہ رکھے تو کیا حکم ہوگا؟ یا دوران اعتکاف عورت کے مخصوص ایام آگئے تو کیا حکم ہوگا؟
الجواب بعون الملک الوہاب ھدایۃ الحق والصواب
اعتکاف واجب و سنت میں روزہ رکھنا شرط ہے لہذا اگر اعتکاف میں کوئی روزہ نہیں رکھتا یا دوران اعتکاف عورت کو مخصوص ایام آگئے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گی جس کی بعد میں قضا لازم ہوگی.
“مصنف ابن ابی شیبۃ”کی حدیث پاک میں ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «الْمُعْتَكِفُ عَلَيْهِ الصَّوْمُ»
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرمایا معتکف پر روزہ رکھنا لازم ہے
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2 کتاب الصیام ص333 مطبوعہ مکتبۃ الرشد .الریاض)
“فتاوی قاضی خاں”میں ہے
ولایکون الا بصوم عندنا
ہمارے نزدیک اعتکاف روزے کے ساتھ ہی ہوتا ہے.
(فتاوی قاضی خان ج1 کتاب الصوم فصل فی الاعتکاف ص195 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)
“بدائع الصنائع”میں جہاں اعتکاف کی شرائط بیان کی ہیں وہاں پر فرمایا:
ومنھا:الصَّوْمُ فَإِنَّهُ شَرْطٌ لِصِحَّةِ الِاعْتِكَافِ الْوَاجِبِ بِلَا خِلَافٍ بَيْنَ أَصْحَابِنَا
ان شرائط میں سے روزہ بھی ہے پس بے شک اعتکاف واجب کے صحیح ہونے کےلئے روزہ شرط ہے ہمارے اصحاب (احناف)میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں.
(بدائع الصنائع ج2 کتاب الاعتکاف فصل شرائط صحۃ الاعتکاف ص108 مطبوعہ دارلکتب العلمیہ)
“بہار شریعت”میں ہے
اعتکافِ سنت یعنی رمضان شریف کی پچھلی دس تاریخوں میں جوکیا جاتا ہے، اُس میں روزہ شرط ہے، لہٰذا اگر کسی مریض یا مسافر نے اعتکاف تو کیا مگر روزہ نہ رکھا تو سنت ادا نہ ہوئی بلکہ نفل ہوا۔
(بہار شریعت حصہ 5 اعتکاف کا بیان ص 1028مکتبۃ المدینہ دعوت اسلامی )
واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
مجیب :عبدہ المذنب ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی