قربانی کے تین حصے کرنا کیا مستحب یا سنت ہے؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ قربانی کے تین حصے کرنا کیا مستحب یا سنت ہے؟ گوشت تقسیم کرنے کے ٹائم رشتہ داروں کو دینا ضروری ہے کیا؟ برائے کرم ! رہنمائی فرمادیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب

قربانی کا گوشت تقسیم کرتے وقت رشتہ داروں کو دینا ضروری نہیں ہے لیکن مستحب یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں اور ان میں سے ایک حصہ فقرا کو دیا جائے دوسرا حصہ دوست واحباب کو دیا جائے اور تیسرا حصہ اپنے گھروالوں کیلئے رکھ لیا جائے۔ اگر سارا گوشت صدقہ کردیا یا سارا گوشت اپنے گھر والوں کے کھانے کیلئے رکھ لیا تو بھی جائز ہے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ: وَيُسْتَحَبُّ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ أُضْحِيَّتِهِ وَيُطْعِمَ مِنْهَا غَيْرَهُ، وَالْأَفْضَلُ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِالثُّلُثِ وَيَتَّخِذَ الثُّلُثَ ضِيَافَةً لِأَقَارِبِهِ وَأَصْدِقَائِهِ، وَيَدَّخِرَ الثُّلُثَ، وَيُطْعِمَ الْغَنِيَّ وَالْفَقِيرَ جَمِيعًا، كَذَا فِي الْبَدَائِعِ. وَيَهَبُ مِنْهَا مَا شَاءَ لِلْغَنِيِّ وَالْفَقِيرِ وَالْمُسْلِمِ وَالذِّمِّيِّ، كَذَا فِي الْغِيَاثِيَّةِ. وَلَوْ تَصَدَّقَ بِالْكُلِّ جَازَ، وَلَوْ حَبَسَ الْكُلَّ لِنَفْسِهِ جَازَ، وَلَهُ أَنْ يَدَّخِرَ الْكُلَّ لِنَفْسِهِ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ إلَّا أَنَّ إطْعَامَهَا وَالتَّصَدُّقَ بِهَا أَفْضَلُ إلَّا أَنْ يَكُونَ الرَّجُلُ ذَا عِيَالٍ وَغَيْرَ مُوَسَّعِ الْحَالِ فَإِنَّ الْأَفْضَلَ لَهُ حِينَئِذٍ أَنْ يَدَعَهُ لِعِيَالِهِ وَيُوَسِّعَ عَلَيْهِمْ بِهِ، كَذَا فِي الْبَدَائِعِ.
ترجمہ: اور مستحب ہے کہ وہ اپنی قربانی کا گوشت خود بھی کھائے اور دیگر کو بھی کھلائے، اور افضل یہ ہے کہ تہائی صدقہ کردے اور تہائی اپنے عزیزوں ودوستوں کو دیدے اور تہائی ذخیرہ کرلے، اور غنی و فقیر سب کو کھلاسکتا ہے، جیساکہ بدائع میں ہے، اور چاہے تو غنی یا فقیر، مسلم و ذمی کو ہبہ کردے۔ جیساکہ غیاثیہ میں ہے۔ اور اگر کل گوشت صدقہ کردے تو بھی جائز ہے اور اگر کل گوشت اپنے لئے رکھ لے تو بھی جائز ہے، اور وہ اپنے لئے تین دن سے زیادہ رکھے تو بھی جائز ہے، مگر یہ کہ قربانی کا گوشت کھلادینا اور صدقہ کردینا افضل ہے، اگر وہ شخص عیال دار ہے اور صاحب وسعت نہیں تو ایسی صورت میں اس کیلئے افضل یہ ہے کہ اپنے زیر کفالت افراد کیلئے رکھ چھودے اور ان پر وسعت کرے۔ جیساکہ بدائع میں ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری، جلد 5، الباب السادس في بيان ما يستحب في الأضحية والانتفاع بها، صفحہ نمبر370، 371، مطبوعہ دالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)

فتاویٰ رضویہ میں ہے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے ایک سوال کے ضمن میں پوچھا گیا کہ ‘‘قربانی کے حصے تین کرنا، ایک حصہ اپنا دوسرا خویش واقارب کا ، تیسرا مسکینوں کا ، آیا گر مساکین لوگ اسلام میں سے نہیں ہیں، تو اس حصہ کا کیاحکم ہے،ا ور اگر کسی شخص نے قربانی کی اور تین حصے نہیں کئے اور سارا گھر میں رکھ لیا آیا قربانی درست ہے یانہیں؟ اسکے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں کہ: تین حصے کرناصرف استحبابی امرہے کچھ ضروری نہیں چاہے سب اپنے صرف میں کرلےی یا سب عزیزوں قریبوں کودے دے، یا سب مساکین کو بانٹ دیں، یہاں اگر مسلمان مسکین نہ ملے تو کافر کو اصلا نہ دے کہ یہ کفار ذمی نہیں، تو ان کو دینا قربانی ہو خواہ صدقہ، اصلا کچھ ثواب نہیں رکھتا۔
(فتاویٰ رضویہ، جلدنمبر20، صفحہ نمبر252 ،253، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

بہار شریعت میں مولانا امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ:قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسرے شخص غنی یا فقیر کو دے سکتا ہے کھلا سکتا ہے بلکہ اس میں سے کچھ کھا لینا قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے۔ بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کرے ایک حصہ فقرا کے لیے اور ایک حصہ دوست و احباب کے لیے اور ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے، ایک تہائی سے کم صدقہ نہ کرے۔ اور کل کو صدقہ کر دینا بھی جائز ہے اور کل گھر ہی رکھ لے یہ بھی جائز ہے۔ تین دن سے زائد اپنے اور گھر والوں کے کھانے کے لیے رکھ لینا بھی جائز ہے اور بعض حدیثوں میں جو اس کی ممانعت آئی ہے وہ منسوخ ہے اگر اوس شخص کے اہل و عیال بہت ہوں اور صاحب وسعت نہیں ہے تو بہتر یہ ہے کہ سارا گوشت اپنے بال بچوں ہی کے لیے رکھ چھوڑے۔
(بہار شریعت، جلد 3،صفحہ نمبر345، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

فتاویٰ فیض الرسول میں مولاناجلال الدین امجدی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے ایک سوال کے ضمن میں پوچھا گیا کہ :گھر میں اہل وعیال اتنے زیادہ ہوں کہ قربانی کے گوشت کے اگر تین حصے کئے جائیں تو گوشت گھر والوں کیلئے کم پڑتا ہے، لہٰذا اس صورت میں اگر پورا گوشت گھر والوں کے کام میں لایا گیا تو قربانی جائز ہے یا نہیں؟اسکے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:اپنے لئے اورفقیر احباب کیلئےقربانی کے گوشت کے تین حصے کرنابہتر ہے، ضروری نہیں،لہٰذا اگر کسی کے اہل و عیال زیادہ ہوں اور وہ سب گوشت اپنے گھروں کے کام میں لائے تو قربانی ناجائز نہ ہوگی، بلکہ اگر صاحب وسعت نہ ہو تو اس کیلئےبہتر یہی ہے کہ کل گوشت اپنے اہل و عیال کیلئے رکھ چھوڑے۔
(فتاویٰ فیض الرسول، جلد نمبر2، صفحہ نمبر 387,388،مطبوعہ اکبربک سیلرز، لاہور)

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم باالصواب

کتبہ

محمد منور عطاری مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں