قربانی کے دن تین ہیں یا چار؟

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سوال:قربانی کے دن تین ہیں یا چار؟

جواب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

ایام قربانی صرف تین ہیں 10 ذوالحجہ سے 12 ذوالحجہ تک کثیر احادیث کریمہ و اقوال فقھا اس کی تائید ہوتی ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے: “أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: “كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثَةِ ‌أَيَّامٍ، فَكُلُوا وَادَّخِرُوا” ترجمہ:حضورﷺ نے فرمایا میں تمھیں قربانی کے گوشت 3 دن سے زیادہ استعمال کرنے سے منع کرتا تھا اب کھا بھی سکتے ہو اور رکھ بھی سکتے ہو۔
(ابن ماجہ،ابواب الاضاحی ،باب الذبح بالمصلی،حدیث3160،4/331،دارالرسالہ العالمیہ)

امام نووی کی شرح صحیح مسلم میں ہے: وَأَمَّا آخِرُ وَقْتِ التَّضْحِيَةِ فَقَالَ الشَّافِعِيُّ تَجُوزُ فِي يَوْمِ النَّحْرِ وَأَيَّامِ التَّشْرِيقِ الثَّلَاثَةِ بَعْدَهُ وَمِمَّنْ قَالَ بِهَذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طالب وجبير بن مطعم وبن عَبَّاسٍ وَعَطَاءٌ وَالْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَسُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى الْأَسَدِيُّ فَقِيهُ أَهْلِ الشَّامِ وَمَكْحُولٌ وَدَاوُدُ الظَّاهِرِيُّ وَغَيْرُهُمْ وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ وَمَالِكٌ وَأَحْمَدُ تَخْتَصُّ بِيَوْمِ النَّحْرِ وَيَوْمَيْنِ بَعْدَهُ وَرُوِيَ هَذَا عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وعلى وبن عُمَرَ وَأَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ترجمہ:اور قربانی کا آخری وقت تو امام شافعی علیہ الرحمہ کے ہاں یوم نحر اور اسکے بعد کے 3ایام تشریق اور اسی طرح جس نے کہا کہ اسی پرحضرات علی وجبیر وابن عباس و عطا و حسن بصری و عمر بن عبد العزیز و سلیمان بن موسی اسدی جو کہ اھل شام کے فقیہ و مکحول وداود ظاہری وغیرہ ہیں۔اور امام ابوحنیفہ و مالک و احمد نے فرمایا کہ قربانی ایام نحر اور اسکے بعد کے دو دنوں کے ساتھ خاص ہے اور یہی عمر بن خطاب و علی و عمر و انس رضوان اللہ علیھم سے مروی ہے۔ (شرح صحیح مسلم للنووی،کتاب الاضاحی،باب وقتھا،13/111،داراحیا التراث العربی بیروت)
مبسوط میں ہے: النحر عندنا ثلاثة أيام أفضلها أولها. بلغنا ذلك عن علي بن أبي طالب وعن ابن عباس ترجمہ: نحر ہمارے ہاں3دن تک ہے جن میں افضل یوم اول ہے کہ ہمیں حضرت علی بن طالب اور ابن عباس رضی اللہ عنھم سے اسی طرح کی روایات پہنچیں۔ (الاصل،کتاب الصید والذبائح،باب من تجب علیہ الاضحیہ،5/413)

مبسوط سرخسی میں ہے: ثم يختص جواز الأداء بأيام النحر وهي ثلاثة أيام عندنا قال – عليه الصلاة والسلام – أيام النحر ثلاثة أفضلها أولها. فإذا غربت الشمس من اليوم الثالث لم تجز التضحية بعد ذلك. وقال الشافعي – رضي الله تعالى عنه – تجوز في اليوم الرابع وهو آخر أيام التشريق، وهذا ضعيف فإن هذه القربة تختص بأيام النحر دون أيام التشريق ألا ترى أن الأفضل أداؤها في اليوم الأول وهو العاشر من ذي الحجة وهو يوم النحر لا أيام التشريق۔ ترجمہ: پھر قربانی کی ادائیگی ایام نحر میں درست ہے اور ہمارے(احناف) کے نزدیک یہ3 ہیں۔حضورﷺ نے فرمایا ایام نحر 3ہیں اور ان میں پہلا افضل ہے۔تو جب تیسرے دن کا سورج غروب ہوجائے تو اب قربانی درست نہیں۔امام شافعی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ چوتھے دن بھی درست ہے اور وہ آخری یومِ تشریق ہے،یہ قیاس ضعیف ہے کہ قربانی وہ عبادت ہے جو ایام نحر کے ساتھ خاص ہے ایام تشریق سے اس کا تعلق نہیں ۔کیا تم نہیں دیکھتے کہ قربانی میں پہلا دن افضل ہے اور وہ 10ذوالحج ہے جو کہ ایام نحر میں سےہے ایام تشریق میں سے نہیں۔ (مبسوط سرخسی،باب الاضحیہ،12/9،دارالمعرفہ بیروت)
بدائع صنائع میں ہے: “والصحيح قولنا لما روي عن سيدنا عمر وسيدنا علي وابن عباس وابن سيدنا عمر وأنس بن مالك – رضي الله تعالى عنهم – أنهم قالوا: أيام النحر ثلاثة أولها أفضلها، والظاهر أنهم سمعوا ذلك من رسول الله – صلى الله عليه وسلم – لأن أوقات العبادات والقربات لا تعرف إلا بالسمع ۔ترجمہ:اورصحیح ہمارا قول ہی ہے کیونکہ حضرات عمروعلی و ابن عباس و عمر و انس بن مالک رضی اللہ عنھم سے یہی مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: ایام نحر 3ہیں اور پہلا افضل ہے،اور ظاہر یہی ہے کہ انھوں نے یہ رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام سے ہی سنا ہوگا کہ عبادات کے اوقات سمع سے ہی جانے جا سکتے ہیں۔ (بدائع صنائع،کتاب التضحیہ،فصل فی وقت وجوب الاضحیہ،5/65،دارالکتب العلمیہ بیروت)

ہدایہ میں ہے: ولنا ما روي عن عمر وعلي وابن عباس رضي الله عنهم أنهم قالوا: أيام النحر ثلاثة أفضلها أولها وقد قالوه سماعا لأن الرأي لا يهتدي إلى المقادير، وفي الأخبار تعارض فأخذنا بالمتيقن وهو الأقل، وأفضلها أولها كما قالوا ولأن فيه مسارعة إلى أداء القربة وهو الأصل إلا لمعارض ترجمہ:ہمارے پاس حضرات عمرو علی و عباس رضی اللہ عنھم سے مروی روایات ہیں کہ انھوں نے فرمایا:ایام نحر 3 ہیں جن میں پہلا افضل ہے اور انھوں نے شارع سے سن کر ہی کہا ہو گا کیونکہ قیاس سے تومقادیر کی راہ نہیں ہوتی،اور اخبار میں تعارض ہے تو ہم نے اس مقدار کو لیا جو یقینی ہے اور وہ اقل مقدار ہے،اور اول پہلا ہے جیسا کہ ان بزرگوں کا قول گزراکیونکہ اس میں عبادت کی ادائیگی میں جلدی کرنا ہے اور یہی اصل ہے مگر جب کوئی عارضہ ہو تو۔ (ہدایہ،کتاب الاضحیہ،علی من تجب الاضحیہ،4/357،دار احیائ التراث العربی بیروت)

بنایہ میں ہے: م: (ولنا ما روي عن عمر وعلي وابن عباس – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ – أنهم قالوا أيام النحر ثلاثة أفضلها أولها) ش: قال الزيلعي في ” تخريج أحاديث الهداية “: هذا غريب جدا، يعني عن هؤلاء الأصحاب الثلاثة، وليس كذلك. قال الكرخي: قال في ” مختصره “: حدثنا أبو بكر محمد بن الجنيد قال: حدثنا أبو خيثمة قال: حدثنا هشيم قال: أخبرنا ابن أبي ليلى عن المنهال ابن عمرو عن زر بن حبيش وعباد بن عبد الله الأسدي عن علي – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ -: أنه كان يقول: أيام النحر ثلاثة أيام أولهن أفضلهن. وعن ابن عباس وعن ابن عمر مثله قال: ” النحر ثلاثة أيام أولها أفضلها “. وروي: ” النحر ثلاثة أيام ” عن عمر – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – وأنس بن مالك وسعيد بن المسيب وسعيد بن جبير، وعن الحسن وعن إبراهيم النخعي. وقال محمد في كتاب ” الآثار “: أخبرنا أبو حنيفة عن حماد عن إبراهيم عن علقمة قال: الأضحى ثلاثة أيام يوم النحر ويومان بعده. وحديث مالك – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – في ” الموطأ ” عن نافع عن ابن عمر – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – أنه كان يقول: الأضحى يومان بعد يوم الأضحى. وفي ” سنن البيهقي ” عن قتادة عن أنس – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – قال: الذبح بعد يوم النحر يومان.
ترجمہ: ہمارے دلائل:
1) حضرات عمروعلی و ابن عباس رضی اللہ عنھم کے اقوال ہیں کہ ایام نحر 3 ہیں اور پہلا افضل ہے ۔امام زیلعی نے تخریج احادیث ھدایہ میں کہا یہ حدیث بہت زیادہ غریب ہے یعنی ان 3 صحابہ سے لیکن معاملہ ایسا نہیں۔
2) امام کرخی نے کہا:حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے ایام نحر 3ہیں اور پہلا افضل ہے اور ابن عباس و ابن عمر نے بھی اسی طرح فرمایا ۔
3) حضرت عمرو انس بن مالک و سعید بن مسیب و سعید بن جبیر و حسن و ابراھیم نخعی رضی اللہ عنھم سے روایت ہے کہ نحر 3دن تک ہے۔
4) امام محمد نے کتاب الاٰثار میں فرمایا کہ امام اعظم نے حماد،انھوں نے ابراھیم،انھوں نے علقمہ سے روایت کی کہ قربانی 3دن ہیں یوم نحر اور اسکے بعددو۔
5) سنن بیھقی میں قتادہ سے وہ انس رضی اللہ عنھم سے راوای فرمایا:ذبح یوم نحر کے بعد دو دن تک ہے۔
6) امام مالک نے اپنی موطا میں ابن عمر سے روایت کیا کہ عید الاضحی کے بعد دو دن تک قربانی ہے۔
7) سنن بیھقی میں انس رضی اللہ عنہ روایت فرمایا ذبح یوم نحر کے بعد 2دن تک ہے۔
(بنایہ،کتاب الاضحیہ،ایام النحر وافضل ھذہ الایام،12/28،دارالکتب العلمیہ بیروت)

بنایہ میں ہے: قال القدوري: الأضحية جائزة في ثلاثة أيام: يوم النحر أولها، والثاني والثالث: وهما يومان بعد يوم النحر. وبه قال مالك، وأحمد، والثوري، وهو قول ستة من الصحابة – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ -، وهم عمر، وعلي، وابن عباس، وابن عمر، وأبو هريرة، وأنس – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ۔۔۔۔ وفي ” نوادر الفقهاء ” لابن بنت نعيم: أجمع الفقهاء أن التضحية في اليوم الثالث عشر غير جائز إلا الشافعي فإنه أجازها فيه ۔۔۔ لقوله – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -: «أيام التشريق كلها أيام ذبح» ش: هذا الحديث أخرجه أحمد في ” مسنده ” وابن حبان في ” صحيحه ” من حديث عبد الرحمن بن أبي جبير عن جبير بن مطعم عن النبي – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قال: «كل أيام التشريق ذبح))۔۔۔ والجواب عن هذا: أن فيه اضطرابا كثيرًا بين صاحب الشعر وبين البيهقي أيضا بعضه. قال: ورواه سويد بن عبد العزيز وهو ضعيف عند بعض أهل النقل. قلت: هو ضعيف عند كلهم أو أكثرهم،۔۔۔ فإن قلنا: أخرجه أحمد أيضا والبيهقي عن سليمان بن موسى عن جبير بن مطعم عن النبي – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -. قلت: قال البيهقي سليمان بن موسى لم يدرك جبير بن مطعم فيكون منقطعا. فإن قلت: أخرج ابن عدي في ” الكامل ” عن معاوية بن يحيى الصدفي عن الزهري عن ابن المسيب – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – عن أبي سعيد الخدري – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – عن النبي – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قال: «أيام التشريق كلها ذبح» قلت: معاوية بن يحيى ضعفه النسائي وابن معين وعلي بن المديني، وقال ابن أبي حاتم في كتاب ” العلل “: فإن هذا حديث موضوع بهذا الإسناد. فإن قلت: أخرج البيهقي من حديث طلحة بن عمر وعن عطاء وعن ابن عباس – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – قال: الأضحى ثلاث أيام بعد أيام النحر. قلت: أخرج الطحاوي بسند جيد عن ابن عباس – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – قال: الأضحى ثلاثة أيام ويومان بعد يوم النحر.
ترجمہ:امام قدوری نے فرمایا:قربانی 3 دن تک جائز ہیں یوم نحر کے بعد دو دن تک۔یہی امام مالک و احمد و ثوری و6صحابہ(عمرو علی و ابن عباس و ابن عمر و ابو ھریرہ و انس )رضی اللہ عنھم کا مذہب ہے۔۔۔ابن نعیم کی نوادر الفقھا میں ہے:امام شافعی علیہ الرحمہ کے علاوہ فقھا کا اجماع ہے کہ قربانی13 تاریخ کو درست نہیں ہے۔
امام شافعی کے احادیث اور انکا جواب:
اور امام شافعی اس حدیث پاک کو اختیار کرتے ہیں کہ ایام تشریق ایام ذبح بھی ہیں۔ اس حدیث کی تخریج امام احمدنے اپنی مسند اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں کی اور یہ عبد الرحمن بن ابو جبیر سے انھوں نے جبیر بن مطعم سے انھوں نے نبی ﷺ سے روایت کیا کہ سارے ایام تشریق ایام ذبح ہیں۔۔۔
1) اسکا جواب یہ ہے کہ اس میں کثیر اضطراب ہے۔
اس حدیث کو سوید بن عبد العزیز نے بھی روایت کیا اور
2) وہ بعض کے نزدیک ضعیف ہے۔ میں کہوں گا وہ تو سب یا اکثیر کے نزدیک ضعیف ہے۔
اور جوہم نے کہا کہ اسکو امام احمد و بیھقی نے سلیمان بن موسی سے انھوں نے جبیر بن مطعم سے انھوں نے نبی ﷺ سے روایت کیاتو جواب یہ ہےکہ:
3) امام بیھقی نے کہا کہ سلیمان بن موسی نے تو جبیر بن مطعم سے ملاقات ہی نہیں کی تو یہ حدیث منقطع ہے۔
اور اگر اسکی تخریج ابن عدی نے اپنی کامل میں معاویہ بن یحی سے کی انھوں نے زھری سے انھوں سے سعید بن مسیب سے انھوں نے ابو سعید خدری سے انھوں نے نبیﷺ سے تو جواب یہ ہیکہ
4) معاویہ بن یحیٰی کی تضعیف امام نسائی وابن معین و علی بن مدینی کرچکے ہیں۔
5) اور ابن ابو حاتم نے کتاب العلل میں کہا کہ یہ حدیث اس اسناد سے موضوع ہے۔
اور جہاں تک بیھقی نے حدیث ِطلحہ ابن عمر سے انھوں نے عطا سے انھوں نے ابن عباس سے روایت کیا تو جواب یہ ہے کہ
6) حضرت ابن عباس سے ہی بہتر سند سے امام طحاوی نے حدیث بیان کی کہ قربانی 3دن ہے اور یوم نحر کے بعد 2دن تک۔
(بنایہ،کتاب الاضحیہ،ایام النحر وافضل ھذہ الایام،12/26-27،دارالکتب العلمیہ بیروت)

فتح القدیر میں ہے: وَلَنَا مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ – أَنَّهُمْ قَالُوا: أَيَّامُ النَّحْرِ ثَلَاثَةٌ أَفْضَلُهَا أَوَّلُهَا وَقَدْ قَالُوهُ سَمَاعًا لِأَنَّ الرَّأْيَ لَا يَهْتَدِي إلَى الْمَقَادِيرِ، وَفِي الْأَخْبَارِ تَعَارُضٌ فَأَخَذْنَا بِالْمُتَيَقَّنِ وَهُوَ الْأَقَلُّ
ترجمہ:حضرات عمرو علی و ابن عباس ڑضی اللہ عنھم کے اقوال یقینا شارعﷺ سے سن کر ہی وارد ہوئے ہونگے کہ مقدار قیاس سے بیان نہیں کی جاسکتی،نیز اخبار میں تعارض ہے تو ہم نے اقل مدت جو یقینی ہے اسکو اختیار کرلیا۔ (فتح القدیر،کتاب الاضحیہ،9/513،دارالفکر لبنان)
فالمروي عنهم كالمروي عن رسول الله – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – ترجمہ: جب مقادیر میں قیاس کا عمل دخل نہیں تو ان صحابہ سے روایت ایسے ہی ہوئی جیسے حضورﷺ سے۔ (بنایہ،کتاب الاضحیہ،ایام النحر وافضل ھذہ الایام،12/28،دارالکتب العلمیہ بیروت)
امام اہلسنت اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ اسی طرح کے ایک فتوے میں فرماتے ہیں:” قربانی یوم نحر تک یعنی دسویں سے بارھویں تک جائز ہے، آخر ایام تشریق تک کہ تیرھویں ہے جائز نہیں”. فتاویٰ رضویہ جلد 20 ، صفحہ 354 مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور
واللہ اعلم بالصواب محمد افضل مدنی عطاری

اپنا تبصرہ بھیجیں