ایک، دو یا تین تولہ سونا ہو تو کیا قربانی واجب ہو گی

آج کل دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر گھروں میں خواتین کے پاس ایک، دو یا تین تولہ سونا ہوتا ہے، تو کیا ان پر ایام قربانی میں قربانی واجب ہو گی، اگر ہے تو پیسے نہ ہونے کی صورت میں کیا کیا جائے، جواب عنایت فرمائیں

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب سے پہلے تمہیدا چند باتیں ذہن میں رکھیں :
1- کسی شخص (مرد ہو یا عورت) کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہے تو مالک نصاب ہے.
2 – یونہی سونا چاندی اس سے کم ہیں، لیکن ان دونوں کو ملا کر دونوں کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو بھی وہ صاحب نصاب ہے .
3- ایسے ہی سونے یا چاندی کو کسی دوسرے مال کے ساتھ ملا کر ،اُن دونوں کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو بھی وہ مالک نصاب ہے.
4- یونہی کسی شخص کی ملکیت میں حاجتِ اصلیہ (یعنی وہ چیزیں جن کی انسان کوحاجت رہتی ہے، جیسے رہائش گاہ ، خانہ داری کے وہ سامان جن کی حاجت ہو،سواری اور پہننے کے کپڑے وغیرہ ضروریاتِ زندگی) سے زائد اگر کوئی ایسی چیز ہے جس کی قیمت تنہا یا سونے یا چاندی کے ساتھ مل کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو وہ بھی نصاب کا مالک ہے.
5- اور قربانی کے ایام میں جو بھی مرد یا عورت حاجتِ اصلیہ سے زائد نصاب کے مالک ہوں، ان پر قربانی واجب ہے.

لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگر ان عورتوں کے پاس دو تین تولے سونے کے علاوہ حاجت اصلیہ سے زائد اتنا مال ہے کہ ایام قربانی میں اس کی مالیت سونے کے ساتھ مل کر ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہو جائے تو ان عورتوں پر قربانی واجب ہو گی، نیز رقم نہ ہونے کی صورت میں سونا وغیرہ فروخت کر کے یا قرض لے کر قربانی کریں.
( آج 4 جولائی 2022 پاکستان اسلام آباد میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تقریبا 80,010 روپے ہے)

قربانی واجب ہونے کے نصاب سے متعلق بدائع الصنائع میں ہے : ”فلا بد من اعتبار الغنى وهو أن يكون فی ملكه مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شیء تبلغ قيمته ذلك سوى مسكنه ومايتأثث به وكسوته وخادمه وفرسه وسلاحه و مالا يستغنی عنه وهو نصاب صدقة الفطر“ ترجمہ: (قربانی میں) مالداری کا اعتبار ہونا ضروری ہے، اور وہ یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں دوسو درہم (ساڑھےباون تولہ چاندی) یا بیس دینار (ساڑھے سات تولہ سونا) ہوں یا رہائش ، خانہ داری کے سامان، کپڑے، خادم، گھوڑا، ہتھیار اور وہ اشیاء جن کے بغیر گزارہ نہ ہو،ان کےعلاوہ کوئی ایسی چیزہو، جو اس (دوسو درہم یا بیس دینار) کی قیمت کو پہنچتی ہو اور یہ ہی صدقہ فطر کا نصاب ہے۔
(بدائع الصنائع،کتاب التضحیۃ ،جلد4 ، صفحہ196،مطبوعہ کوئٹہ)

سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں : ”قربانی واجب ہونے کے لیے صرف اتنا ضرور ہے کہ وہ ایام قربانی میں اپنی تمام اصل حاجتوں کے علاوہ 56 روپیہ(اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے دور میں رائج چاندی کا نصاب) کے مال کا مالک ہو، چاہے وہ مال نقد ہو یا بیل بھینس یا کاشت، کاشتکار کے ہل بیل اس کی حاجت اصلیہ میں داخل ہیں ، ان کا شمار نہ ہو۔ “
(فتاوی رضویہ،جلد 20،صفحہ 370 ، رضافاونڈیشن ، لاھور)

صدر الشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃاللہ علیہ بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں:”جو شخص دو سو درہم یا بیس دینار کا مالک ہو یا حاجت کےسوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو ، جس کی قیمت دوسو درہم ہو ، وہ غنی ہے ، اوس پر قربانی واجب ہے۔ حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان ، جن کی حاجت ہو اور سواری کا جانور اور خادم اور پہننے کے کپڑے ، ان کے سوا جو چیزیں ہوں ، وہ حاجت سے زائد ہیں۔“
(بہارِشریعت،جلد 3، صفحہ 333، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

قربانی واجب ہو اور رقم موجود نہ ہو تو اس کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے: ’’جس پر قربانی ہےاور اس وقت نقد اس کے پاس نہیں، وہ چاہے قرض لے کر کرے، یا اپنا کچھ مال بیچے ۔ ‘‘
(فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 370، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وقار الفتاوی میں ہے: ’’ جو صاحب نصاب ہے، اس پر قربانی واجب ہے، قربانی کرنے کے لئے اپنا سونا چاندی فروخت کرے یا قرض لے کر کرے، دونوں صورتوں میں سے کسی ایک پر عمل کرے۔‘‘
(وقار الفتاوی، جلد 2، صفحہ 470، مطبوعہ بزم وقار الدین، کراچی)
(والله تعالى اعلم بالصواب)

کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں