کیا ہم آقا کریم ﷺ کی طرف سے بھی قربانی کر سکتے ہیں؟

سوال:مفتی صاحب کیا ہم آقا کریم ﷺ کی طرف سے بھی قربانی کر سکتے ہیں؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

ایام قربانی میں آقاﷺ کی طرف سے قربانی ہوسکتی ہے کہ یہ عمل تو حدیث پاک سے ثابت ہے اور اس سے مقصود ایصال ثواب اور تبرک ہوتا ہے۔ نیزکتب فقہ میں اسکی صراحت ہے کہ قربانی کے جانور میں کسی طرح کے تقرب کی نیت ہو سکتی ہے،لہذا اگر بڑے جانور میں یہ قربانی کی جائے تو سب کی قربانی درست ہوجائے گی اور اسکا کھانا بھی جائز ہو گا۔نیز یہ ہی ضروری نہیں کہ ایک آدمی ہی یہ قربانی کرے ،یہاں کئی افراد ملکر بھی یہ قربانی کر سکتے ہیں۔نیز اگرغنی نے ایک ہی قربانی کی اور آقاکریم ﷺ کی طرف سے قربانی کی نیت کی تو اسکا اپنا وجوب بھی ادا ہو جائےگااور اسکا ثواب بارگاہ اقدس ﷺ کے لئے شمارہوگا۔

ابو داودشریف میں ہے:عن حنش قال رایت علیا یضحی بکبشین فقلت ما ھذا فقال ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوصانی ان اضحی عنہ فانا اضحی عنہ۔ترجمہ:روایت ہے حضرت حنش سے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کو دیکھا کہ آپ دو بکرے قربانی دیتے تھے مں نے عرض کیا یہ کیا تو فرمایا مجھے رسول اﷲ ﷺ نے وصیت فرمائی کہ میں آپ کی طرف سے بھی قربانی کروں لہذا میں حضور کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔ (سنن ابی داود،کتاب الضحایا،2/37،مکتبہ رحمانیہ لاہور)

اسکے تحت مراۃ المناجیح میں ہے: ظاہر یہ ہے کہ حضرت علی 3 بکرے قربانی کرتے تھے دوحضور ﷺ کی طرف سے مطابق آپ کی حیات شریف کے اور ایک اپنی طرف سے۔اس سےمعلوم ہوا کہ بعد وفات مرحوم کی طرف سے قربانی دیناجائزہے،ہاں اگر میت کی قربانی ہوتو اس کا سارا گوشت خیرات کردیا جائے اگر وارث اپنی جانب سے محض ثواب کے لئے میت کی طرف سے قربانی کرے تو خودبھی کھائے اورفقراءو امیر سب کوکھلائے،حضور انورﷺ کے نام کی قربانی توتبرک ہے،مسلمان برکت کے لئےکھائیں ۔آج بھی بعض خوش نصیب حضورﷺ کی طرف سے قربانی کرتے ہیں ان کی اصل یہ حدیث ہے۔(مراۃ المناجیح،2/364،قادری پبلشرزلاہور)

مسلم شریف میں ہے: قال: باسم اﷲ، اللہم تقبل من محمد وآل محمد، ومن أمۃ محمد، ثم ضحی بہ۔ حضور ﷺ نے فرمایا بِسْم اﷲ اے اللہ اسے(چھوٹے جانورکو) محمدﷺ و آل محمد ﷺو امت محمدﷺ کی طرف سے قبول فرماپھر اس کی قربانی کی۔
(مسلم شریف، کتاب الأضاحي، باب استحباب الضحیۃ وذبحہا مباشرۃ بلا توکیل والتسمیۃ والتکبیر،2/165،مکتبہ رحمانیہ لاہور)

اسکے تحت مراۃالمناجیح میں ہے: یعنی قربانی کے ثواب میں انہیں بھی شریک فرمادے۔اس سےمعلوم ہوا کہ اپنے فرائض و واجبات کاثواب دوسروں کو بخش سکتے ہں اس میں کمی نہیں آسکتی۔یہ حدیث کھانا سامنے رکھ کر ایصال ثواب کرنے کی قوی دلیل ہے کہ بکری سامنے ہے اور حضور اس کا ثواب اپنی آل اور امت کو بخش رہے ہیں۔
(مراۃ المناجیح،2/360،قادری پبلشرزلاہور)

شامی میں ہے:قال فی البدائع لان الموت لا یمنع التقرب عن المیت بدلیل انہ یجوز ان یتصدق عنہ ویحج عنہ،وقد صح رسول اللہ ﷺ ضحی بکبشین احدھما عن نفسہ والاخر عمن لم یذبح من امتہ وان کان منھم من قد مات قبل ان یذبح۔ترجمہ: بدائع میں ہے کیونکہ موت میت کی طرف سے نیکیوں کو مانع نہیں ہے ۔دلیل یہ ہیکہ اسکی طرف سے صدقہ و حج بھی جائز ہے،اور رسول اکرم ﷺ کی طرف سے صحیح حدیث آئی ہے کہ آپ نے دو مینڈھوں کو ذبح فرمایا،ایک اپنی طرف سے اور ایک امت کے ان افراد کی طرف سے جنہوں نے قربانی نہیں کی،اگرچہ ان میں وہ بھی ہونگے جو ذبح سے پہلے وفات پا چکے ہوں گے۔ (تنویر مع در مع رد،کتاب الاضحیہ،9/471،دار عالم الکتب ریاض)

شامی میں ہے:قال الصدرالمختار انہ ان بامر المیت لا یاکل منھا والا یاکل۔ ترجمہ:مختار یہ ہیکہ اگر یہ قربانی میت کے حکم سے ہو تو نہیں کھائے گا ورنہ کھاسکے گا۔ (تنویر مع در مع رد،کتاب الاضحیہ،9/472،دار عالم الکتب ریاض)

بدائع صنائع میں ہے:ولو ارادوا القربۃ الاضحیہ او غیرھا من القرب،اجزاھم،سواء کانت القربۃ واجبۃ او تطوعا،او وجبت علی البعض دون البعض۔ترجمہ:اور اگر قربت میں قربانی کا ارادہ ہو یا غیر کا تو انکو کفایت کرے گا،برابر ہے کہ قربت نفلی ہو یا وجوبی،بعض پر واجب ہو اور اوروں پر واجب نہ ہو۔ (بدائع صنائع،کتاب التضحیہ،جلد6،ص305-306،دارالکتب العلمیہ بیروت)

فتاوٰی فقیہ ملت میں ہے:چھ آدمی مل کر بڑا جانور خریدیں اور ساتواں حصہ سب ملکر حضورﷺ کے نام قربانی کریں تو یہ جائز ہے اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں۔کیونکہ شرع میں اسکی کی حرمت یا کراھت ثابت نہیں۔ (فتاوٰی فقیہ ملت،2/246،شبیر برادرز لاہور)

خانیہ میں ہے: ولو ضحیٰ عن المیت من مال نفسہ بغیر امر المیت جاز،ولہ ان یتناول منہ ولا یلزمہ ان یتصدق بہ،لانھا لم تصر ملکا للمیت بل الذبح حصل علی ملکہ ،ولھذا لو کان علی الذابح اضحیۃ سقطت عنہ۔ ترجمہ:اور اگر کسی نے میت کی طرف سے اپنے مال سے بغیر اسکی اجازت کے قربانی کی،تو اسکے لئے اسے کھانا جائز ہے،صدقہ کرنا ضروری نہیں،وجہ یہ ہیکہ یہ میت کی ملکیت میں نہیں گیا بلکہ ذبح اسکی اپنی ملک میں ہوا ہے،اسی لئے اگر اس پر قربانی واجب ہوتی تو وجوب پورا ہو جاتا۔
(خانیہ،کتاب الاضحیہ،3/239،دار الکتب العلمیہ بیروت)

واللہ اعلم بالصواب کتبہ تیمور احمد صدیقی عطاری

اپنا تبصرہ بھیجیں