عام دونوں کی نسبت زیادہ ریٹ لینا

لوگ عید کے مواقع میں ریٹ عام دونوں کی نسبت زیادہ کردیتے ہیں. کیا یہ زیادہ Profit لینا جائز ہے خاص کر ان دنوں میں، اس کے بعد ریٹ پھر نارمل ہوجاتے ہیں خصوصاً درزی، قصاب، نائی وغیرہ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

شریعت نے نفع کی مقدار مقرر کیئے بغیر تجارت کو حلال فرمایا ، اور مقدارِ نفع کو عاقدین (بائع و مشتری) کی مرضی پر چھوڑا، لہذا مالک اپنی چیز بغیر دھوکہ فراڈ کے جتنے کی چاہے بیچے، خریدار چاہے تو اتنے کی لے لے یا چھوڑ دے.

قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے : ” اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ” ترجمہ : اللہ نے خرید و فروخت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا.
(القرآن ،البقرۃ ، آیت نمبر 275)

ایک اور مقام پر ہے : ” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ” ترجمہ : اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ البتہ یہ (ہو) کہ تمہاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو.

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: “یعنی باہمی رضامندی سے جو تجارت کرو وہ تمہارے لئے حلال ہے۔ باہمی رضامندی کی قید سے معلوم ہوا کہ خرید و فروخت کی وہ تمام صورتیں جن میں فریقین کی رضامندی نہ ہو درست نہیں جیسے اکثرضبط شدہ چیزوں کی نیلامی خریدنا کہ اس میں مالک راضی نہیں ہوتا یونہی کسی کی دکان ،مکان زمین یا جائیداد پر جبری قبضہ کر لینا حرام ہے۔
(القرآن، النساء، آیت نمبر 29)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے : عن أبي قلابة، قال: «إذا اختلف النوعان، فبع كيف شئت» ترجمہ : حضرت ابو قلابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : جب دو چیزوں کی نوع مختلف ہو تو جیسے چاہے بیچ.
(مصنف ابن أبي شيبة، کتاب البیوع والأقضیہ، باب فی الحنطۃ بالشعیر ، حدیث نمبر 20599، 320/4)

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے : ” وإذا اختلف النوعان فبيعوا كيف شئتم ” ترجمہ : ” جب دو مختلف نوعیں ہوں تو جیسے چاہو بیچو.
(نصب الرایۃ للأحاديث الہدایۃ ،ج 4 ، ص 04 ،مطبوعہ المکتبۃ المکیۃ)
وإذا
(عبد الحق الدِّهْلوي، لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح، کتاب البیوع ،باب الربا ، الفصل الثانی، ٥٣٤/٥)

فتح القدير اور فتاوی شامی میں ہے : “لو باع كاغدة بألف يجوز ولا يكره.” ترجمہ : اگر کسی نے کاغذ کا ٹکڑا ہزار روپے کے بدلے میں بیچا تو جائز ہے.
(الكمال بن الهمام، فتح القدير للكمال ابن الهمام،کتاب الکفالۃ ، 212/7)
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)،کتاب الکفالۃ ، مطلب بیع العینۃ، ٣٢٦/٥)

فتاوی رضویہ میں ہے : ” اپنے مال کا ہر شخص کو اختیار ہے چا ہے کوڑی کی چیز ہزار روپیہ کودے، مشتری کو غرض ہولے، نہ ہونہ لے۔
(فتاوی رضویہ ،ج 17، ص97 ، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : “ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کو کم یا زیادہ جس قیمت پر مناسب جانے بیع کرے، تھوڑا نفع لے یا زیادہ ، شرع سے اس کی ممانعت نہیں”
(فتاوی امجدیہ ،جلد 3 ص 181 ، مکتبہ رضویہ ،کراچی)

2- البتہ تاجروں کو چاہیے کہ اخلاقی طور پر چیزوں کا ریٹ زیادہ نہ کریں عوام کی خیر خواہی کریں۔ اگر تاجر بہت زیادہ نفع مقرر کریں جس سے عوام مشقت میں پڑ جائے تو حکومت کو اختیار ہے کہ ایک مناسب نفع مقرر کر کہ عوام کو مشقت سے بچائیں، اور اس صورت میں تاجروں کا حکومت کی طرف سے مقررہ نفع سے زیادہ میں چیز بیچنا درست نہیں.
عوام سے مشقت دور کرنے کیلئے قیمت مقرر کرنا درست ہے چنانچہ ہدایہ شریف میں ہے : ” فلا ينبغي للإمام أن يتعرض لحقه إلا إذا تعلق به دفع ضرر العامة” ترجمہ : حاکم کے لئے (چیزوں کی قیمت مقرر کر کے) لوگوں کے حق کے پیچھے پڑنا مناسب نہیں، مگر یہ کہ لوگوں سے ضرر دور کرنا مقصود ہو (یعنی پھر حاکم کا چیزوں کی قیمت مقرر کرنا درست ہے)
(الهداية في شرح بداية المبتدي،کتاب الکراہیۃ ، فصل فی البیع ،378/4)

بہارشریعت میں ہے : ” تاجروں نے اگر چیزوں کا نرخ بہت زیادہ کردیا ہے اور بغیر نرخ مقرر کیے کام چلتا نظر نہ آتا ہو تو اہل الرائے سے مشورہ لے کر قاضی نرخ مقرر کرسکتا ہے اور مقرر شدہ نرخ کے موافق جو بیع ہوئی یہ بیع جائز ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بیع مُکرَہ ہے کیونکہ یہاں بیع پرا کراہ نہیں ، قاضی نے اسے بیچنے پر مجبور نہیں کیا۔ اسے اختیار ہے کہ اپنی چیز بیچے یا نہ بیچے، صرف یہ کیا ہے کہ اگر بیچے تو جو نرخ مقرر ہوا ہے، اس سے گراں نہ بیچے۔”
(بہار شریعت ، جلد 3 ، حصہ 16 ، صفحہ 483 ، مکتبۃالمدینہ کراچی )

(نوٹ) درزی،نائ قصائ وغیرہ دیگر اجیر اور اجارہ کرنے والے باہم رضا مندی سے جو بھی اجرت طے کریں زیادہ یا تھوڑی یہ بھی درست ہے کیونکہ اجارہ میں اجرت اور بیع میں ثمن کا ایک ہی حکم ہوتا ہے، اجرت گویا کہ ثمن ہی ہے لہذا جیسے بائع ثمن میں زیادہ نفع رکھ سکتا ہے ایسے ہی اجیر اجرت بھی زیادہ طے کر سکتا ہے، الاختیا لتعليل المختار میں ہے : “وما صلح ثمنا صلح أجرة) لأنها ثمن أيضا” ترجمہ : جو چیز ثمن بن سکتی ہے اجرت بھی بن سکتی ہے کیونکہ اجرت ثمن ہی کی طرح ہے.
(ابن مودود الموصلی , الاختيار لتعليل المختار کتاب الاجارۃ ,2/51)

(والله تعالى اعلم بالصواب)

کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں