کبوتر وغیرہ پرندوں کو پالنے کی شرعی حیثیت

کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں  کہ  کبوتر وغیرہ پرندوں کو پالنا جائز ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب  اللٰھم  ھدایۃ الحق وا لصواب

کبوتر وغیرہ حلال پرندے پالنے کی چند شرائط ہیں:

(1)  ان کے دانہ پانی میں ہرگز کمی نہ ہونے دی جائے یعنی وہ بھوکے پیاسے نہ رہیں۔ بلکہ  دانہ پانی دینے کے متعلق تو یہاں تک تاکید فرمائی گئی کہ دن میں ستر بار دانہ پانی دکھایا جائے ۔

(2) شوقیہ اڑانے کے لیے نہ پالے جائیں کہ کبوتر بازی کے طور پر  اڑاناایک قسم کالہو فعل ہے ،جس کی شرعااجازت نہیں،نیزاڑانے میں عموما کئی ناجائزکام ہوتے ہیں، مثلااڑانے میں جوئے وغیرہ کی بازیاں لگائی جاتی ہیں، بھوکے پیاسے پرندوں کوگھنٹوں اڑایاجاتاہے،نیچے آناچاہیں توآنے نہیں دیا جاتا، ان کو اڑانے والے سارا سارا دن اس فعل میں مشغول ہو کر نماز وغیرہ احکام دینیہ سے غافل ہوئے رہتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

(3) ان کوآپس میں ہر گز لڑوایانہ جائے  ۔

پس ان مذکورہ شرائط پر عمل کرتے ہوئے محض دل بہلانے کے لیے کبوتر وغیرہ حلال پرندوں کا پالنا جائز ہے۔ البتہ یہ خیال رہے یہاں اسپین میں جن پروندوں کو گھر میں پالنے پر قانونی پابندی ہے، انہیں گھر میں پالنے کی شرعا بھی اجازت نہیں ہوگی، کیونکہ ریاست کا ایسا قانون جو شریعت کے خلاف نہ ہو اور اس کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں خود کو   ذلت پرپیش کرنا پایا جائے گا یارشوت یامالی جرمانہ دینا پڑےگا، تو اس قانون پرعمل کرناضروری ہے،اوراس کی خلاف ورزی کرنا جائز نہیں۔

شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان﷫ (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:” اورجانورانِ خانگی مثل خروس وماکیان وکبوتراہلی وغیرہا کاپالنا بلاشبہ جائزہے، جبکہ انہیں ایذاسے بچائے اور آب ودانہ کی کافی خبرگیری رکھے،خودحدیث میں مُرغ سپید پالنے کی ترغیب ہے۔ …مگرخبرگیری کی یہ تاکید ہے کہ دن میں ستردفعہ پانی دکھائے، کماورد فی الحدیث  (جیساکہ حدیث میں وارد ہواہے۔) ورنہ پالنا اوربھوکاپیاسارکھناسخت گناہ ہے،فانہ ظلم والظلم علی الحیوان اشد من الظلم علی الذمی الاشد من الظلم علی مسلم کمانص علیہ فی الدر  المختار (ترجمہ: کیونکہ یہ ظلم ہے اور کسی جانور پرظلم کرنا ذمی (کافر) پرظلم کرنے سے زیادہ سخت ہے، جوکہ مسلمان پر ظلم کرنے سے بھی زیادہ سخت ہے، جیسا کہ درمختار میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔)“

(فتاوی رضویہ، جلد نمبر 24، صفحه نمبر 643، مطبوعه: رضا فاؤندیشن لاہور)

آپ ﷫ ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں: ”کبوتر پالنا جبکہ خالی دل بہلانے کے لئے ہو اور کسی امرناجائز کی طرف مؤدی نہ ہوجائزہے اور اگرچھتوں پرچڑھ کراڑائے کہ مسلمانوں کی عورات پرنگاہ پڑے یا ان کے اڑانے کوکنکریاں پھیکنے جوکسی کاشیشہ توڑیں یاکسی کی آنکھ پھوڑیں یاکسی کادم بڑھائے اورتماشا ہونے کے لئے دن بھر انہیں بھوکا اُڑائے جب اُترنا چاہیں نہ اُترنے دیں، ایساپالنا حرام ہے۔

درمختارمیں ہے : ” یکرہ امساک الحمامات ولو فی برجھا ان کان یضربالناس بنظر او جلب والاحتیاط ان یتصدق بھا ثم یشتریھا اوتوھب لہ، مجتبی، فان کان یطیرھا فوق السطح مطلعاً علی عورات المسلمین و یکسر زجاجات الناس برمیہ تلک الحمامات عزر  ومنع اشدالمنع فان لم یمتنع ذبحھا المحتسب وصرح فی الوھبانیۃ بوجوب التعزیر وذبح الحمامات ولم یقیدہ بما مر ولعلہ اعتمد عادتھم واما للاستیناس فمباح اھـ“ (ترجمہ:کبوتروں کوروک رکھنا اگرچہ ان کے برجوں میں ہو مکروہ ہے اگرلوگوں کونقصان پہنچتاہودیکھنے یا پکڑنے کی وجہ سے، اور احتیاط یہ ہے کہ انہیں خیرات کردیاجائے  پھرانہیں خریدے یا اسے ہبہ کئے جائیں، مجتبٰی۔ پھراگرچھتوں پرچڑھ کر اڑانے کہ مسلمانوں کی پردہ دار خواتین  پرنگاہ پڑے یا انہیں اڑانے کے لئے کنکرپھینکنے جن سے لوگوں کے گھروں کی کھڑکیوں روشندانوں کے شیشے ٹوٹنے کی نوبت آئے تو یہ سخت منع ہے، اور اگر اس حرکت سے بازنہ آئے، توحاکم شہر انہیں ذبح کرا ڈالے۔ اور وہبانیہ میں تصریح ہے کہ اس صورت میں سزادینا اورکبوتروں کو ذبح کرڈالنا واجب ہے اور انہوں نے گزشتہ قید کا ذکرنہیں کیا شاید انہوں نے فقہائے کرام کی عادت پراعتمادکیاہے، اور اگرکبوترپروری صرف دل بہلانے اور انس کے لئے ہوتو مباح ہے۔اھ.  )

(فتاویٰ رضویہ ،جلد نمبر 24،صفحہ نمبر 223،مطبوعه: رضافاؤنڈیشن لاہور)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی ﷫ (المتوفی: 1367ھ/1948ء) لکھتے ہیں:” کبوتر پالنا اگر اڑانے کے لیے نہ ہو تو جائز ہے اور اگر کبوتروں کو اڑاتا ہے تو ناجائز کہ یہ بھی ایک قسم کا لہو ہے اور اگر کبوتر اڑانے کے لیے چھت پر چڑھتا ہے جس سے لوگوں کی بے پردگی ہوتی ہے یا اڑانے میں کنکریاں پھینکتا ہے جن سے لوگوں کے برتن ٹوٹنے کا اندیشہ ہے، تو اس کو سختی سے منع کیا جائے گا اور سزا دی جائے گی اور اس پر بھی نہ مانے تو حکومت کی جانب سے اس کے کبوتر ذبح کرکے اسی کو دے دیے جائیں، تاکہ اڑانے کا سلسلہ ہی منقطع ہوجائے۔ …  جانوروں کو لڑانا مثلاً مرغ، بٹیر، تیتر، مینڈھے، بھینسے وغیرہ کہ ان جانوروں کو بعض لوگ لڑاتے ہیں یہ حرام ہے،اور اس میں شرکت کرنا، یا اس کا تماشہ دیکھنا بھی ناجائز ہے۔“

(بہار شریعت، جلد نمبر 3،  حصہ نمبر 16،صفحه نمبر 512، مطبوعه: مکتبة المدینہ)

فقیہ اعظم سیدی اعلیٰ حضرت ﷫ فرماتےہیں:’’کسی ایسےامرکاارتکاب جوقانوناً ناجائز ہو اورجرم کی حدتک پہنچے شرعاً بھی ناجائزہوگا،کہ ایسی بات کےلیےجرمِ قانونی کامرتکب ہو کر اپنےآپ کوسزااورذلت کےپیش کرناشرعاً بھی روا نہیں۔‘‘

 (فتاویٰ رضویہ ،جلد نمبر20،صفحہ نمبر192،مطبوعه: رضافاؤنڈیشن لاہور)

                             و  اللہ اعلم  عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

  کتبــــــــــــــــــــــــــــہ

عبده المذنب احمدرضا عطاری حنفی عفا عنه الباري

26 رمضان المبارک   1444ھ/              17 اپریل 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں