اجتماعی قربانی میں بد مذہب کا حصہ ہو تو اس قربانی کا حکم؟ 

: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں اجتماعی قربانی میں بد مذہب کا حصہ ہو تو اس قربانی کا کیا حکم ہے ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 الْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

 جو بدمذہب اپنی بدمذہبی میں حد کفر تک پہنچا ہو وہ مرتد ہے اور مرتد اگر اجتماعی قربانی میں حصہ دار ہو تو کسی کی بھِی قربانی نہیں ہوگی۔ جو بدمذہب حد کفر تک نہیں پہنچا اس کو اگر حصہ دار بنایا تو قربانی ہوجائے گی لیکن بدمذہب کو اجتماعی قربانی میں شامل نہیں کرنا چاہیے۔

فتاوی ھندیہ میں ہے: أو کان شریك السبع من یرید اللحم أو کان نصرانیا ونحو ذلك لا یجوز للآخرین أیضا کذا في السراجیة

ترجمہ: اور اگر ان سات حصہ داروں میں سے کسی کا ارادہ گوشت کا ہو یا ان میں سے کوئی نصرانی ہو یا اسی طرح کےمثلا کافر و مرتد تو یہ قربانی باقیوں کے لئے جائز نہیں اور اسی طرح سراجیہ میں ہے ۔

فتاویٰ ہندیہ کتاب الأضحیة ج ٥ ص ٣٧٦ مطبوعہ :دار الکتب العلمیہ

بہار شریعت میں ہے :گائے کے شرکا میں سے ایک کافر ہے یا ان میں ایک شخص کا مقصود قربانی نہیں ہے بلکہ گوشت حاصل کرنا ہے تو کسی کی قربانی نہ ہوئی۔       (بہار شریعت ج ٣ ح ١٥ ص ٣٤٣ مدینۃ العلمیہ

 واللہ تعالیٰ اعلم

ابوالحسنین محمود احمد رضوی

اپنا تبصرہ بھیجیں