وراثت

ایک شخص کے بہنوئی کے انتقال کے بعد اسکی بیوی دو بیٹے اور ایک بیٹی انکے گھر کی ویلیو ایک کروڑ ہے اسکی وراثت کیسے تقسیم ہو گی تفصیل سے الگ الگ بتائیے گا کہ کس کو کتنے کتنے لاکھ ملے گا.

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سوال میں بیان کردہ مردہ شخص کی وراثت کا شرعی حکم یہ ہے کہ کفن دفن کا خرچ، میت کا قرض اور جائز وصیت کی صورت میں باقیماندہ مال کے ایک تہائی سے وصیت کی ادائیگی کے بعد، میت کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کے کل 40 حصے کیے جائیں گے جن میں سے 5 حصے میت کی بیوی کو اور باقی 35 حصے بیٹے اور بیٹیوں میں اسطرح تقسیم ہوں گے کہ بیٹے کو بیٹی کے مقابلے میں دوگنا ملے یعنی 7 حصے بیٹی کو اور 14، 14 حصے دونوں بیٹوں کو ملیں گے جس کی تفصیل یہ ہے کہ کل 10000000(ایک کروڑ ) میں سے 1250000 (بارہ لاکھ پچاس ہزار ) بیوی کو ملے گا اور 1750000 (سترہ لاکھ پچاس ہزار ) بیٹی کو جبکہ 3500000 (پینتیس لاکھ ) ایک بیٹے کو اور اتنا ہی دوسرے بیٹے کو بھی ملے گا.

قرآن مجید میں میت کی بیوی کے حصے کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌۚ-فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍؕ
ترجمہ : اور اگر تمہارے اولاد نہ ہو توتمہارے ترکہ میں سے عورتوں کے لئے چوتھائی حصہ ہے، پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے (یہ حصے) اس وصیت کے بعد (ہوں گے) جو وصیت تم کر جاؤ اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوں گے۔)
(پارہ 4، النساء، آیت نمبر 12)

میت کے بیٹوں اور بیٹیوں کے متعلق ارشاد فرمایا : یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْۗ-لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِۚ ترجمہ : اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے.
(پارہ 4، النساء، آیت نمبر 11)
ذوی الفروض کو دینے کے بعد جو بچے گا وہ بطور عصبہ بیٹوں اور بیٹیوں میں اس طرح تقسیمِ ہو گا کہ بیٹوں کو بیٹیوں کے مقابلے میں دگنا ملے، چنانچہ علامہ عبد اللہ بن محمود موصلی حنفی علیہ الرحمتہ “الاختیار لتعلیل المختار” میں عصبہ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں “وھم کل من لیس لہ سھم مقدر ویأخذ ما بقی من سھام ذوی الفروض واذا انفرد اخذ جمیع المال” عصبہ ہر وہ شخص ہے جسکا حصہ مقرر نہ ہو اور وہ اصحاب فروض کا باقی ماندہ حصہ لیتا ہو اور جب اکیلا ہو تو تمام مال لیتا ہو
(کتاب الاختیار لتعلیل المختار، کتاب الفرائض، فصل فی العصبات، الجزء الخامس، ص 112، المکتبۃ الحقانیہ، پشاور)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : ” وھم نوعان عصبۃ بالنسب وعصبۃ بالسبب اما النسبیۃ فثلاثۃ انواع، عصبہ بنفسہ وھو کل ذکر لا یدخل فی نسبتہ الی المیت أنثی واقربھم جزء المیت وھم بنوہ ثم بنوھم وان اسفلو……. وعصبۃ بغیرہ وھم اربع من النساء یصرن عصبۃ باخوتھن فالبنات بالابن” ترجمہ : اور ان (عصبات) کی دو قسمیں ہیں (1) نسبی (2) سببی ، پس نسبی کی تین قسمیں ہیں (پہلی قسم) عصبہ بنفسہ ہے اور وہ ہر وہ مرد ہے کہ جس کی میت کی طرف نسبت کرنے میں کوئی عورت داخل نہ ہو اور ان میں سب سے زیادہ قریبی میت کا جزء ہے اور وہ میت کے بیٹے ہیں، پھر اس کے بیٹے اگرچہ نچلت درجے کے ہوں، (یعنی میت کے پوتے)…..اور (دوسری قسم) عصبہ بغیرہ اور وہ چار عورتیں ہیں جو اپنے بھائیوں کے ساتھ عصبہ ہو جاتی ہیں، پس بیٹیاں بیٹوں کے ساتھ عصبہ ہو جاتی ہیں.
(کتاب الاختیار لتعلیل المختار، کتاب الفرائض، فصل فی العصبات، الجزء الخامس، ص 113-114، المکتبۃ الحقانیہ، پشاور)

مسئلہ کی صورت یہ ہو گی :
مسئلہ کی صورت یہ ہو گی :
مسئلہ از 8×5=40
بیوی 2بیٹے 1بیٹی
1/8 عصبہ عصبہ
1×5=5 باقی7×5=35
مزید تفصیل
کل مال 10000000
بیوی کا حصہ = کل مال کو 8 پر تقسیم کریں جو جواب آئے یعنی 1250000 یہ بیوی کو دے دیں باقی مال یعنی 8750000 کو 5 حصوں پر تقسیم کریں کیونکہ بیٹے کو دو حصے ملیں گے جو جواب آئے یعنی 1750000 وہ ایک بیٹی کو دیں اور اسکا ڈبل یعنی 3500000 بیٹے کو دے دیں اور اتنا ہی دوسرے بیٹے کو دے دیں

(والله تعالى اعلم بالصواب)

کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں