سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ شلوار یا پاجامہ پائنچوں سےنیچے لٹاکر نماز پڑھ سکتے ہیں؟ اور اس طرح نماز پڑھنے سے نماز پر کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پاجامہ یا تہبند ٹخنوں کے نیچے تک پہن کرنمازپڑھنا مکروہ تنزیہی ہے اور اگربرائے تکبر ہو تو حرام اور اس صورت میں نماز مکروہ تحریمی، واجب الاعادہ (یعنی دوبارہ پڑھنی) ہوگی۔
حدیث شریف میں ہے:
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ أَسْبَلَ إِزَارَهُ فِي صَلَاتِهِ خُيَلَاءَ، فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي حِلٍّ وَلَا حَرَامٍ،
عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، کہ میں نے رسول اللہ صلی اﷲ تعالیٰ علیه وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’جو شخص نماز میں تکبر سے تہبند لٹکائے، اسے اﷲ (عزوجل) کی رحمت حل میں ہے، نہ حرم میں۔’’
(سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، باب الإسبال في الصلاۃ، الحدیث : 637، ج 1، ص 257)
ابوداود شریف میں ہے:حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ يُصَلِّي مُسْبِلًا إِزَارَهُ إِذْ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ، فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ جَاءَ، ثُمَّ قَالَ: اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ، فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ أَمَرْتَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ ثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ؟ فَقَالَ: إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَهُ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَقْبَلُ صَلَاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ إِزَارَهُ.
ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ ایک صاحب تہبند لٹکائے نماز پڑھ رہے تھے، ارشاد فرمایا: ‘‘جاؤ وضو کرو’’، وہ گئے اور وضو کر کے واپس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرارشاد فرمایا: ‘‘جاؤ وضو کرو’’، وہ گئے اور وضو کر کے واپس آئے۔ کسی نے عرض کی،یا رسول اﷲ ( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ! کیا ہوا کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے وضو کا حکم فرمایا؟ ارشاد فرمایا:‘‘وہ تہبند لٹکائے نماز پڑھ رہا تھا اور بے شک اﷲ عزوجل اس شخص کی نماز قبول نہیں فرماتا،جو تہبند لٹکائے ہوئے ہو۔’’(یعنی اتنا نیچا کہ پاؤں کے ٹخنے چھپ جائیں)۔
(سنن أبي داود، کتاب الصلاۃ، باب الإسبال في الصلاۃ، الحدیث : 638 ، ج 1، ص 257)
صحیح بخاری میں ہے:حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاءَ لَمْ يَنْظُرِ اللهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أَحَدَ شِقَّيْ إِزَارِي يَسْتَرْخِي إِلَّا أَنْ أَتَعَاهَدَ ذَلِكَ مِنْهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَسْتَ مِمَّنْ يَصْنَعُهُ خُيَلَاءَ.»
نبی اکرم صلیٰ اللہ علہ وسلم! نے ارشاد فرمایا:جس نے تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن اس کی طرف نظَرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔ صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے عرض کی: یارسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وسلم! میرا تہبند لٹک جاتا ہے جب تک میں اس کا خاص خیال نہ رکھوں۔ فرمایا: تم ان میں نہیں ہو جو براہ تکبرایساکریں۔
(صحیح بخاری، باب فی جرازارہ من غیر خیلاءِ،حدیث 5784، صفحہ141، السلطانية)
فتاوٰی عالمگیری میں ہے:
اسبال الرجل ازارہ اسفل من الکعبین ان لم یکن للخیلاء ففیہ کراھۃ تنزیہ کذا فی الغرائب ۔
یعنی کسی آدمی کاٹخنوں سے نیچے تہبند لٹکاکرچلنا اگر تکبر کی بناپر نہ ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔ غرائب میں یونہی ہے۔
(فتاویٰ ہندیہ، کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع فی اللبس، مطبوعہ نورانی کتب خانہ، پشاور5 /333)
بہار شریعت مں ہے:
اسبال یعنی کپڑا حد معتاد سے بافراط دراز رکھنا منع ہے۔۔۔۔۔۔۔۔دامنوں اور پائنچوں میں اسبال یہ ہے کہ ٹخنوں سے نچے ہوں اور آستینوں میں انگلیوں سے نیچے اور عمامہ میں یہ کہ بیٹھنے میں دبے۔
(بہار شریعت،مکروہات کا بیان، جلد1، حصہ3، صفحہ632، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)
فتاویٰ رضویہ مں ہے:
ازارکاگِٹّوں(ٹخنوں) سے نچے رکھنا اگربرائے تکبر ہو حرام ہے اور اس صورت میں نماز مکروہ تحریمی ورنہ صرف مکروہ تنزیہی، اور نماز میں بھی اس کی غایت اولٰی۔
(فتاویٰ رضویہ،جلد 7، صفحہ نمبر389، کتاب الصلوٰۃ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
فتاویٰ رضویہ میں ہے:
تمام متونِ مذہب میں ہے: ’’کرہ کفہ‘‘ ترجمہ: کپڑوں کو لپیٹنا مکروہ ہے۔ لہذا لازم ہے کہ آستینیں اتار کرنماز میں داخل ہو، اگرچہ رَکعت جاتی رہے اور اگرآستین چڑھی نمازپڑھے، تو اعادہ کی جائے۔ کما ھو حکم صلاۃ ادیت مع الکراھۃ کمافی الدر وغیرہ ۔ ترجمہ:جیسا کہ ہراس نماز کاحکم ہے جو کراہت(تحریمی) کے ساتھ اداکی گئی ہو۔
(فتاوٰی رضویہ ، جلد 7 ، صفحہ 310 ، 311 ، رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
وَاللّٰہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کتبہ
محمد منور علی اعظمی بن محمد شریف اعظمی غفرلہ