کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا بیٹا بالغ ہے، اس نے رمضان المبارک میں جان بوجھ کر روزے نہیں رکھے، 18 اور 20 رمضان دو دن ایسے گزرے کہ ان میں میرے کہنے پر اس نے روزہ رکھا پھر جانتے بوجھتے پانی وغیرہ پی کر روزہ توڑ دیا۔ اب اس کے لیے کیا حکم ہےنہ رکھے گئے روزوں کے متعلق اور ان دو روزوں کے متعلق کہ جو رکھ کر توڑ دیئے؟ اگر کفارہ ہے تو کیا اور کیسے ادا ہوگا؟ مفصل و مدلل ارشاد فرمائیں!
بسم الله الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هدایة الحق والصواب
صورتِ مستفسرہ میں جان بوجھ کر بلا عذر روزے نہ رکھنےکی وجہ سے یہ بیٹا سخت گناہ گار ہے اس پر توبہ فرض ہے۔ نیز جن روزوں کو چھوڑا اس پر توبہ کے ساتھ ساتھ ان کی قضا بھی لازم ہے، مگر کفارہ واجب نہیں۔
اورجن دو روزوں کو توڑا، اگر واقعۃً جان بوجھ کر توڑے ہیں اور ان روزوں کی نیت رات میں کی تھی یعنی صبح صادق سے پہلے تو ایسی صورت میں قضا کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی لازم ہوگا،البتہ ایک ہی کفارہ ان دونوں کے عوض کافی ہوگا۔ نیز ان توڑے ہوئے دونوں روزوں کی قضا بھی لازم ہے۔یعنی جتنے روزے نہیں رکھے ان کی قضا اور جو دو روزے توڑے ہیں ان دونوں کی قضا اور ایک کفارہ۔
روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ روزہ توڑنے والا کفارہ ادا کرنے کی نیت سے پے درپے لگاتار ساٹھ روزے رکھے، اگر روزے نہیں رکھ سکتا تو ساٹھ (60) مسکینوں کو بھر پیٹ دونوں وقت کھانا کھلائے یا ساٹھ (60) فطرانے ادا کردے۔لیکن یہ کھانا کھلانا بوڑھوں کے لیے ہوتا ہے جو گرمیوں یا سردیوں میں ساٹھ روزے رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے ،آپ کا بیٹا چونکہ نوجوان بالغ ہے اس لیے اس پر ساٹھ روزے رکھنا ہی لازم ہے۔
واضح رہے! کفارے کےروزے رکھنے کی صورت میں اگر درمیان میں ایک دن کا بھی روزہ چھوٹ گیا تو پھر سے ساٹھ 60 روزے رکھنے ہوں گے، پہلے کے روزے نہیں گنے جائیں گے اگرچہ انسٹھ 59 رکھ چکا ہو، اگرچہ بیماری وغیرہ کسی عذر کی وجہ سے چُھوٹا ہو، صرف عورت کے لیے رخصت ہے کہ اگر اسے حیض آجائے تو حیض کی وجہ سے جتنے ناغے ہوئے یہ ناغے نہیں شمار کیے جائیں گے یعنی پہلے کے روزے اور حیض کے بعد والے دونوں کے مِل کر ساٹھ 60 ہو جانے سے کفارہ ادا ہوجائے گا۔
رمضان المبارک کے روزے رکھنا ہر مکلف مسلمان پر فرض ہے بلا عذر شرعی ایک روزہ چھوڑنا بھی حرام و گناہ ہے۔ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”من أفطر يوما من رمضان من غير رخصة ولا مرض، لم يقض عنه صوم الدهر كله وإن صامه“ ترجمہ: جس نے کسی رخصت اور مرض کے بغير رمضان المبارک کا ايک روزہ چھوڑا وہ ساری زندگی کے روزے رکھے تب بھی اس کی کمی پوری نہيں کر سکتا۔
(جامع الترمذی، ابواب الصوم ، باب ماجاء فی الافطارمتعمداً، جلد نمبر 3، صفحہ نمبر 92، حدیث نمبر 723، مطبوعہ: شركة مكتبة)
حضرت ابو ہریرہ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالٰی عَنْهُ سے مرفوعاً مروی ہے: ”من أفطر يوما من رمضان من غير عذر ولا مرض، لم يقضه صيام الدهر وإن صامه “ ترجمہ: جس نے رمضان المبارک کے ايک دن کا روزہ کسی عذريا مرض کے بغير توڑ دیا اگرچہ وہ ساری زندگی کے روزے رکھے اس کی کمی پوری نہيں کر سکتا۔
(صحیح بخاری، کتاب الصوم ، باب اذا جامع فی رمضان، جلد نمبر 3، صفحہ نمبر 32، مطبوعہ: دار طوق النجاة)
علامہ ابو حسن علی بن ابو بكر المرغينانیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْھ (المتوفى 593ھ) فرماتے ہیں: ”ومن لم ينو في رمضان كله لا صوما ولا فطرا فعليه قضاؤه“ ترجمہ: اور جس نےپورے رمضان میں نیت ہی نہ کی نہ روزہ رکھنے کی نہ افطار کی تو اس پر قضا لازم ہے۔
(الهداية في شرح بداية،کتاب الصوم،باب ما يوجب…، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 126 ، مطبوعہ: دار احياء التراث العربي)
علامہ ابن عابدين محمد امين حنفی شامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْھ (المتوفى: 1252ھ) لکھتے ہیں: ”فلا بد من النية لأن الواجب الإمساك بجهة العبادة، ولا عبادة بدون نية فلو أمسك بدونها لا يكون صائما ويلزمه القضاء دون الكفارة. أما لزوم القضاء فلعدم تحقق الصوم لفقد شرطه، وأما عدم الكفارة …الأولى التعليل بعدم تحقق الصوم؛ لأن الكفارة إنما تجب على من أفسد صومه والصوم هنا معدوم وإفساد المعدوم مستحيل“ ترجمہ: نیت کے ساتھ روزہ رکھنا ضروری ہے، کیونکہ جو واجب ہے وہ بطور عبادت “امساك” (یعنی رکنا) ہے اور نیت کے بغیر عبادت نہیں ہوتی۔ اگر نیت کے بغیر رکے تو وہ روزہ دار ہی نہیں ہوگا اور اس پر قضا لازم ہوگی، جبکہ کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ جہاں تک قضا کے لازم ہونے کا تعلق ہے تو وہ اس لیے کہ شرط کے نہ پائے جانے کی وجہ سےروزہ متحقق ہی نہیں ہوگا۔ اور جہاں تک کفارہ کے لازم نہ ہونے کا تعلق ہے تو بہتر یہ ہے کہ علت روزے کے متحقق نہ ہونے کے ساتھ بیان کی جائے کیونکہ کفارہ اس پر واجب ہوتا ہے جس نے روزے کو فاسد کیا ہو، جبکہ یہاں روزہ معدوم ہے اور معدوم کو فاسد کرنا محال ہے۔
(رد المحتار على الدر المختار، کتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده،جلد 2، صفحہ 403، مطبوعہ: دارالفکر، بیروت)
علامہ ابو حسن علی بن ابو بكر المرغينانیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْھ (المتوفى 593ھ) فرماتے ہیں: ”ومن أصبح غير ناو للصوم فأكل لا كفارة عليه “ ترجمہ: اور جس نے بغیر روزے کی نیت کئے صبح کی پھر اس نے کچھ کھا لیا تو اس پر کفارہ نہیں۔
(الهداية في شرح بداية،کتاب الصوم،باب ما يوجب…، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 126 ، مطبوعہ: دار احياء التراث العربي)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ”إذا أكل متعمدا ما يتغذى به أو يتداوى به يلزمه الكفارة “ ترجمہ: جب روزہ دار نے جان بوجھ کر ایسی چیز کھائی جو غذا یا دوا کے طور پر استعمال ہوتی ہے تو اس پر کفارہ لازم ہے۔
(الفتاوی الھندیہ، کتاب الصوم، ما يوجب القضاء والكفارة، جلد نمبر1، صفحہ نمبر205، مطبوعہ: دارالفکر)
علامہ أبو بكر بن علی حدادی حنفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْھ(المتوفى: 800ھ) فرماتے ہیں: ”إن كان في رمضان واحد فأفطر في يوم واحد ثم في يوم آخر فإن كفر للأول لزمه كفارة للثاني بالإجماع وإن لم يكفر للأول كفته كفارة واحدة عندنا “ ترجمہ: اگر ایک رمضان ہی میں ایک دن روزہ توڑا پھر دوسرے کسی دن روزہ توڑا تو اگر پہلے روزے کا کفارہ ادا کر چکا تھا تو دوسرے روزے کے توڑنے پر پھر کفارہ لازم ہے اجماعی طور پر، اور اگر پہلے کا کفارہ ابھی ادا نہیں کیا تھا تو ہمارے نزدیک ایک ہی کفارہ کافی ہوگا۔ (الجوهرة النيرة، کتاب الصوم، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 141، مطبوعہ: المطبعة الخيرية)
صدر الشریعہ، بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی (المتوفی 1367ھ) بہارِ شریعت میں لکھتے ہیں: ”روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ ممکن ہو تو ایک رقبہ یعنی باندی یا غلام آزاد کرے اور یہ نہ کر سکے مثلاً اس کے پاس نہ لونڈی غلام ہے، نہ اتنا مال کہ خریدے یا مال تو ہے مگر رقبہ میسر نہیں جیسے آج کل یہاں ہندوستان میں، تو پے درپے ساٹھ روزے رکھے، یہ بھی نہ کرسکے تو ساٹھ ۶۰ مساکین کو بھر بھر پیٹ دونوں وقت کھانا کھلائے اور روزے کی صورت میں اگر درمیان میں ایک دن کا بھی چھوٹ گیا تو اب سے ساٹھ ۶۰ روزے رکھے، پہلے کے روزے محسوب نہ ہوں گے اگرچہ اُنسٹھ ۵۹ رکھ چکا تھا، اگرچہ بیماری وغیرہ کسی عذر کے سبب چُھوٹا ہو، مگر عورت کوحیض آجائے تو حیض کی وجہ سے جتنے ناغے ہوئے یہ ناغے نہیں شمار کیے جائیں گے یعنی پہلے کے روزے اور حیض کے بعد والے دونوں مِل کر ساٹھ ۶۰ ہو جانے سے کفارہ ادا ہوجائے گا۔“
(بہار شریعت، جلد نمبر 1، حصہ نمبر 5، صفحہ نمبر 995، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)
فقیہِ ملت مفتی جلال الدین امجدی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْھ(المتوفی 1422ھ) فرماتے ہیں: ”ایسے لوگ جو کہ ماہ رمضان کے دنوں میں علانیہ کھاتے ہیں ظالم، جفا کار، سخت گنہگار، مستحقِ عذابِ نار ہیں۔ بادشاہ اسلام کو حکم ہے کہ ایسے لوگوں کو قتل کردے۔۔۔ اور جہاں بادشاہ اسلام نہ ہو تو مسلمان پر لازم ہے کہ ایسے لوگوں پر سختی کریں اور ان کا بائیکاٹ کریں ورنہ وہ بھی گنہگار ہوں گے۔“ (فتاوی فیض الرسول، جلد نمبر1، صفحہ نمبر 475، مطبوعہ:اکبر بک سیلرز)
والله اعلم عزوجل ورسوله اعلم صلی الله تعالی علیه واله وسلم
کتــــــــبه
احمدرضا عطاری حنفی عفی عنہ