دیئے گئے مال پر زکوۃ

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ ایک بندے نے اپنی بہن کو قرض دیا اور بعد میں کہا یہ قرض میں نے تجھے معاف کیا، اب کیا اس دیئے گئے مال پر زکوۃ اس دینے والے پر ہو گی ؟ بینوا توجروا۔

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

جب اپنی بہن کو قرض دے کر معاف کر دیا تو اب اس دی گئی رقم پر دینے والے کے ذمے زکوٰۃ نہیں ہو گی؛ کیونکہ وہ پیسے اس کی ملکیت سے نکل چکے ہیں، اور زکوٰۃ اس مال پر ہوتی ہے جو اپنی ملکیت میں ہو۔

نوٹ: یاد رہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب قرض دینے اور معاف کرنے کے دوران اس پر زکوٰۃ فرض نہ ہوئی ہو وگرنہ ان قرض والے پیسوں کو شامل کر کے زکوٰۃ ادا کرنی ہو گی کیونکہ معاف کرنے سے پہلے وہ رقم اسی دینے والے کی ملکیت میں ہی باقی تھے۔

مرشد الحیران إلى معرفة أحوال الإنسان میں ہے: ” من أبرأ شخصاً من حق له عليه يصح الإبراء عنه سقط عن المبرأ ذلك الحق “.

ترجمہ: مقروض کو قرض معاف کر دیا تو یہ معاف کرنا درست ہے اور معاف کرنے والے کی ملکیت سے اتنا مال نکل جائے گا۔
( مرشد الحيران إلى معرفة أحوال الإنسان، صفحة 156، مطبوعہ المطبعۃ الکبریٰ الامیریۃ )۔

درِ مختار میں ہے: ” ( وسببه ) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) “۔

ترجمہ: زکوٰۃ فرض ہونے کا سبب بقدرِ نصاب کا مالک ہونا ہے۔ ( الدرالمختار شرح تنویر الابصار، صفحہ 126، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ).

فتاویٰ ہندیہ المعروف فتاویٰ شامی میں ہے: ” وَمِنْهَا الْمِلْكُ التَّامُّ “.
ترجمہ: زکوٰۃ فرض ہونے کی شرط ( مال کا ) کامل طور پر مالک ہونا ہے۔ ( الفتاویٰ الھندیۃ، جلد 01، صفحہ 172، مطبوعہ دار الفکر بیروت )۔

صدر الشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی بہارِ شریعت میں زکوٰۃ واجب ہونے کی شرائط بتاتے ہوئے فرماتے ہیں: ” ( مال کا ) بقدر نصاب اُس کی مِلک میں ہونا، اگر نصاب سے کم ہے تو زکاۃ واجب نہ ہوئی۔ ( بہارِ شریعت، جلد 01، حصہ 05، صفحہ 876، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ).

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبہ

سگِ عطار ابو احمد محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

اپنا تبصرہ بھیجیں