الارم لگانے کے باوجود اگر فجر کے وقت آنکھ نہ کھلے تو کیا ہم گنہگار ہوں گے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نماز فجر کے لیے آنکھ کھلنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، جب ہمیں صبح جلدی ڈیوٹی پر جانا ہو، ٹرین یا فلائٹ پکڑنی ہو تب ہمیں کیسی اور کتنی فکر لاحق ہوتی ہے ، سونے سے پہلے بیداری کا کیسا بہترین اہتمام ہوتا ہے، اور پھر عموماً ہماری آنکھ کھل بھی جاتی ہے، تو ایسے ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ نماز فجر کے وقت آنکھ کھلنے کا اہتمام کرنا چاہیے، اسی اہتمام کے پیشِ نظر نبی پاک علیہ السلام نے عشاء کے بعد فضول باتوں کو ناپسند فرمایا اور فقہائے کرام نے فرمایا کہ رات دیر تک جاگنا جس سے نماز فجر قضا ہونے کا خطرہ ہو شرعاً جائز نہیں، نیز اگر جاگنے پر مکمل اعتماد یا جگانے والا موجود نہ ہو تو فجر کا وقت داخل ہونے کے بعد بلکہ دخول وقت سے پہلے بھی سونے کی اجازت نہیں جبکہ رات کا اکثر حصہ جاگ کر گزارا ہو اور گمان ہو کہ اب سویا تو آنکھ نہ کھلے گی.
البتہ اگر واقعی اپنی طرف سے اہتمام کے باوجود کسی کی آنکھ نہ کھلے تو اس نماز کی قضا پڑھنی فرض ہے، مکروہ وقت نہ ہو تو بیدار ہوتے ہی پڑھ لے، ہاں نماز قضا کرنے کا گناہ اسے نہیں ملے گا.
حدیث مبارکہ میں ہے : ” قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال الله تعالى: إني فرضت على أمتك خمس صلوات وعهدت عندي عهدا أنه من جاء يحافظ عليهن لوقتهن أدخلته الجنة ومن لم يحافظ عليهن فلا عهد له عندي” ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری اُمت پر (دن رات میں) پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور میں نے یہ عہد کیا ہے کہ جو اِن نمازوں کی اُن کے وقت کے ساتھ پابندی کرے گا میں اس کو جنت میں داخل فرماؤں گا اور جو پابندی نہیں کرے گا تو اس کے لئے میرے پاس کوئی عہد نہیں۔
( سنن أبي داود، کتاب الصلاۃ ، باب فی المحافظۃ علی وقت الصلوات، حدیث نمبر 430، 117/1)
صحیح بخاری شریف میں ہے “عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يعقد الشيطان على قافية رأس أحدكم إذا هو نام ثلاث عقد يضرب كل عقدة عليك ليل طويل، فارقد فإن استيقظ فذكر الله، انحلت عقدة، فإن توضأ انحلت عقدة، فإن صلى انحلت عقدة، فأصبح نشيطا طيب النفس وإلا أصبح خبيث النفس كسلان” ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی سوتا ہے تو شیطان اُس کی گُدّی (یعنی گردن کے پچھلے حصّے) میں تین گِرہیں لگادیتا ہے ، ہر گرہ پر یہ بات دل میں بٹھاتا ہے کہ ابھی رات بہت ہے سوجا ، پس اگر وہ جاگ کر اللہ کا ذکر کرے تو ایک گرہ کُھل جاتی ہے ، اگر وُضو کرے تو دوسری گرہ کُھل جاتی ہے اور نماز پڑھے تو تیسری گرہ بھی کُھل جاتی ہے ، پھر وہ خوش خوش اور تروتازہ ہو کر صبح کرتا ہے ، ورنہ غمگین دل اور سستی کے ساتھ صبح کرتا ہے.
(صحيح البخاري، کتاب التھجد،باب عقد الشیطان علی قافیۃ الرأس، حدیث نمبر 1142، 52/2)
عشاء کے بعد باتیں کرنے کے متعلق بخاری شریف میں ہے : ” عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَ العِشَاءِ وَالحَدِيثَ بَعْدَهَا” ترجمہ : حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونا اور عشاء کے بعد باتیں کرنا مکروہ جانتے تھے.
( صحيح البخاري، کتاب مواقیت الصلاۃ ،باب مایکرہ من النوم قبل العشاء، حدیث نمبر 568، 118/1)
اس حدیث کے تحت علامہ بدر الدين عینی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں ” وأما كراهة الحديث بعدها فلأنه يؤدي إلى السهر، ويخاف منه غلبة النوم عن قيام الليل والذكر فيه، أو عن صلاة الصبح” ترجمہ: عشاء کے بعد گفتگو کرنا مکروہ اس لیے ہے کہ یہ فضول باتوں کی طرف لیجاتا ہے یا رات کے ذکر و قیام سے نیند کے غالب آنے کا اندیشہ ہوتا ہے یا نماز فجر پر نیند کے غلبے کا خوف ہوتا ہے.
(عمدة القاري شرح صحيح البخاري،کتاب مواقیت الصلاۃ ،باب مایکرہ من النوم قبل العشاء، حدیث نمبر 568 66/5)
فتاوی شامی میں ہے: ” وإنما كره الحديث بعده؛ لأنه ربما يؤدي إلى اللغو أو إلى تفويت الصبح” ترجمہ : عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنا مکروہ ہے، کیونکہ کبھی یہ باتیں کرنا لغو یا نماز فجر کی فوت کرنے کا سبب بن جاتیں ہیں.
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين ، کتاب الصلاۃ ، مطلب فی طلوع الشمس من مغربھا، 368/1)
رات دیر تک جاگنے اور لیٹ سونے سے نماز فجر کے فوت ہونے کا خوف ہو تو اس حوالے سے فقہائے کرام ارشاد فرماتے ہیں ” لو غلب على ظنه تفويت الصبح لا يحل؛ لأنه يكون تفريطا ” ترجمہ : اگر نماز فجر کے فوت ہونے کا غالب گمان ہو تو جائز نہیں ( یعنی رات دیر سے سونا جائز نہیں) کیونکہ یہ (جان بوجھ کر بغیر عذر شرعی کے) کوتاہی ہے.
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين ، کتاب الصلاۃ ، مطلب فی طلوع الشمس من مغربھا، 368/1)
فتاوٰی رضویہ میں ہے : ” جب جانے کہ اب سویا تو نماز جاتی رہے گی اس وقت سونا حلال نہیں مگر جبکہ کسی جگا دینے والے پر اعتماد ہو.
( فتاوٰی رضویہ، فوائد جلیلہ، ج4، ص698، رضا فاؤنڈیشن لاہور )
بہارشریعت میں ہے : “جب یہ اندیشہ ہو کہ صبح کی نماز جاتی رہے گی تو بلا ضرورت شرعیہ اُسے رات میں دیر تک جاگنا ممنوع ہے۔”
(بھار شریعت، جلد1، حصہ4، صفحہ701، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
بہارشریعت میں ہے : ” دخول وقت کے بعد سو گیا پھر وقت نکل گیا تو قطعاً گنہگار ہوا جب کہ جاگنے پر صحیح اعتماد یا جگانے والا موجود نہ ہو بلکہ فجر میں دخول وقت سے پہلے بھی سونے کی اجازت نہیں ہوسکتی جب کہ اکثر حصہ رات کا جاگنے میں گزرا اور ظن ہے کہ اب سو گیا تو وقت میں آنکھ نہ کھلے گی۔”
(بھار شریعت، جلد1، حصہ4، صفحہ701، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
اہتمام کے باوجود آنکھ نہ کھلے تو قضا لازم ہے البتہ گنہگار نہ ہو گا چنانچہ نبی پاک علیہ السلام سے جب صحابہ کرام نے نیند کی وجہ سے نماز) چھوٹ جانے کے متعلق پوچھا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا : “فَقَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ، إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِي اليَقَظَةِ، فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ صَلاَةً، أَوْ نَامَ عَنْهَا، فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا. ترجمہ : نیند کی صورت میں کوتاہی نہیں، کوتاہی اس بیداری کی صورت میں ہے (یعنی جو جاگتے ہوئے نماز چھوڑے) جب تم میں سے کوئی نماز بھول جائے یا سو جائے تو جب یاد آئے نماز پڑھ لے.
(سنن الترمذي،ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی النوم، حدیث نمبر 177 ، 244/1)
مسلم شریف میں ہے “عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا رقد أحدكم عن الصلاة، أو غفل عنها، فليصلها إذا ذكرها” ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نماز سے سو جائے یا اس سے غافل ہو جائے تو جب یاد آئے نماز پڑھ لے.
(صحيح مسلم،باب قضاء الصلاۃ الفائتہ،حدیث نمبر 684، 477/1)
اس حدیث کے تحت علامہ بدر الدين عینی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : “وإنما خصص الشارع النائم والغافل بالذكر لذهاب الإثم في حقهما” ترجمہ : شارع علیہ السلام نے سونے والے اور غافل کی ذکر کے ساتھ (یعنی ان کے متعلق فرمایا کہ جب یاد آئے پڑھ لے) تخصیص فرمائ، ان دونوں کے حق میں گناہ کے چلے جانے (اُٹھ جانے) کی وجہ سے.
(البناية شرح الهداية، کتاب الصلاۃ ، 583/2)
بخاری شریف کی اس حدیث ” من نسي صلاة فليصل اذا ذكرها لا كفارة لها” کے تحت علامہ بدر الدين عینی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں “والنائم والناسي لا إثم عليه” ترجمہ : سونے والے اور بھولنے والے پر گناہ نہیں.
( عمدة القاري شرح صحيح البخاري،کتاب مواقیت الصلاۃ ، باب من نسی الصلاۃ ،93/5)
فتاوٰی رضویہ میں ہے : ” ایسے وقت میں سویا کہ عادۃً وقت میں آنکھ کھل جاتی اور اتفاقاً نہ کُھلی تو گنہگار نہیں ۔
( فتاوٰی رضویہ، فوائد جلیلہ، ج4، ص698، رضا فاؤنڈیشن لاہور )
فتاوٰی رضویہ شریف میں ایک اور مقام پر ہے : رہا ادا کا ثواب ملنا اللہ عَزَّوَجَل کے اختِیار میں ہے ۔ اگر وُہ جانے گا کہ اس نے اپنی جانِب سے کوئی تَقصیر (کوتاہی) نہ کی ، صُبح تک جاگنے کے قَصد سے بیٹھا تھا اور بے اختِیار آنکھ لگ گئی تو ضَرور اُس پر گُناہ نہیں ۔
(فتاوٰی رضویہ ،جلد8 صَفْحَہ 161 ، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
بہارشریعت میں ہے “سوتے میں یا بھولے سے نماز قضا ہوگئی تو اس کی قضا پڑھنی فرض ہے، البتہ قضا کا گناہ اس پر نہیں ، مگر بیدار ہونے اور یاد آنے پر اگر وقت مکروہ نہ ہو تو اُسی وقت پڑھ لے تاخیر مکروہ ہے، کہ حدیث میں ارشاد فرمایا: ’’جو نماز سے بھول جائے یا سو جائے تو یاد آنے پر پڑھ لے کہ وہی اس کا وقت ہے”
(بھار شریعت، جلد1، حصہ4، صفحہ701، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
امیر اہلسنت، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ نماز فجر کے اہتمام کے متعلق ترغیبا ارشاد فرماتے ہیں : ” میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! نعت خوانیوں ، ذِکرو فکر کی محفِلوں نیز سنّتوں بھرے اجتماعات وغیرہ میں رات دیر تک جاگنے کے بعدسونے کے سبب اگر نَمازِ فجر قَضا ہونے کا اندیشہ ہو تو بَہ نیّتِ اعتکاف مسجِد میں قِیام کریں یا وہاں سوئیں جہاں کوئی قابلِ اعتماد اسلامی بھائی جگانے والا موجود ہو یا اِلارم والی گھڑی ہو جس سے آنکھ کُھل جاتی ہو مگر ایک عدد گھڑی پر بھروسہ نہ کیا جائے کہ نیند میں ہاتھ لگ جانے سے یا یوں ہی خراب ہو کر بند ہو جانے کا امکان رہتا ہے، دو یا حسبِ ضَرورت زائد گھڑیاں ہوں تو بہتر ہے۔ فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں ، ’’جب یہ اندیشہ ہو کہ صبح کی نَماز جاتی رہے گی تو بِلا ضَرورتِ شَرعِیَّہ اُسے رات دیر تک جاگنا ممنوع ہے۔‘‘
(نماز کے اَحکام، صفحہ 329 مکتبۃ المدینہ کراچی )
(والله تعالى اعلم بالصواب)
کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی