کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مسبوق نماز میں شامل ہوتے ہی ثناء پڑھے گا یا فوت شدہ کی ادائیگی کے وقت؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر مسبوق نے امام کو سری نماز کے قیام میں پایا ہے تو ثناء پڑھے گا اگرچہ امام سرا قراءت شروع کرچکا ہو چاہے کوئی سی بھی رکعت چل رہی ہو،اسی طرح اگر جہری کی آخری دو رکعتوں میں پایا ہے تو بھی ثناء پڑھے گا،اور اگر جہری نماز کی پہلی دو رکعتوں میں شامل ہوا ہے تو ثناء نہیں پڑھے گا ، بلکہ جب اپنی فوت شدہ رکعتوں کی ادائیگی کے لئے کھڑا ہوگا اس وقت ثناء پڑھے گا۔
ردالمحتار میں ہے:وينبغي التفصيل، إن كان الإمام يجهر لا يثني، وإن كان يسر يثني. اهـ. وهو مختار شيخ الإسلام خواهر زاده، وعلله في الذخيرة بما حاصله أن الاستماع في غير حالة الجهر ليس بفرض بل يسن تعظيما للقراءة فكان سنة غير مقصودة لذاتها وعدم قراءة المؤتم في غير حالة الجهر لا لوجوب الإنصات بل لأن قراءة الإمام له قراءة.
وأما الثناء فهو سنة مقصودة لذاتها وليس ثناء الإمام ثناء للمؤتم، فإذا تركه يلزم ترك سنة مقصودة لذاتها للإنصات الذي هو سنة تبعا بخلاف تركه حالة الجهر. اهـ.
ترجمہ: یہاں پر تفصيل کرنا مناسب ہےوہ یہ ہے کہ اگر امام بلند آواز سے قراءت کررہا ہے تو مسبوق ثناء نہیں پڑھے گا اور اگر آہستہ قراءت کر رہا ہے تو اب مسبوق ثناء پڑھے گا، شيخ الإسلام خواهر زاده علیہ الرحمہ کا یہی مختار قول ہے، “ذخیرہ” میں اس قول کی علت یہ بيان کی ہے کہ حالت جھر کے علاوہ میں استماع فرض نہں ہے بلکہ قراءت کی تعظم کی وجہ سے فقط سنت ہے لہذا یہ ایک ایسی سنت ہے کہ جو بذات خود سنت نہیں اور مقتدی کا حالت جھر کے علاوہ میں قراءت نہ کرنا انصات کے وجوب کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس لئے کہ امام کی قراءت مقتدی کی ہی قراءت شمار ہوتی ہے،
بہر حال ثناء تو یہ بذات خود ایک سنت ہے اور امام کی ثناء مقتدی کی ثناء شمار نہیں ہوتی، تو جب مسبوق ثناء چھوڑ دے گا تو اس صورت میں انصات کی وجہ سے کہ جو بالتبع سنت ہے ایک ایسی سنت کو چھوڑنا لازم آئے گا کہ جو بذات خود ایک سنت ہے، برخلاف جہری حالت میں ثناء چھوڑنے کے۔
(ردالمحتار، ج1، ص488، دار الفکر، بیروت)
علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ منحۃ السلوک میں لکھتے ہیں:
وإن أدرك الإمام في القيام، هل يأتي بالثناء قال خواهر زادة: وإن أدركه في قيام مخافتة: يثني، وكذا إن أدركه في الأخريين من الجهرية، وإن أدركه في الأوليين منها قيل: يثني، وقيل: يستمع، وقيل: يثني حرفا حرفا عند سكتات الإمام.
ترجمہ:اگر مسبوق نے امام کو قیام کی حالت میں پایا تو مسبوق ثناء پڑھے گا یا نہیں علامہ خواهر زادہ نے فرمایا: اگر مسبوق نے امام کو سری (نماز یا سری رکعت ) کے قیام مںن پایا تو ثناء پڑھے گا، اسی طرح اگر جہری کی آخری دو رکعتوں میں پایا تو بھی ثناء پڑھے گا، اور اگر امام کو جہری کی پہلی دو رکعتوں میں پایا تو ایک قول کے مطابق ثناء پڑھے گا ،اور دوسرے قول کے مطابق، توجہ سے قراءت سنے گا اور
تیسرے قول کے مطابق ثناء تو پڑھے گا لیکن امام کے سکتوں کے دوران تھوڑا، تھوڑا کر کے پڑھے گا۔
(منحۃ السلوک، جزء1،ص124، وزارۃ الاوقاف والشؤون الاسلامیۃ، قطر،مکتبہ شاملہ)
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
ومحل إتيانه بالثناء: إن كان في ركعة سرية أتى بالثناء بعد تكبيرة الإحرام، وإن أدرك الإمام في ركعة جهرية، لايأتي به مع الإمام على الصحيح، بل يأتي به عند قضاء ما فاته، وعندئذ يتعوذ ويبسمل للقراءة كالمنفرد.
ترجمہ:ثناء پڑھنے کا مقام۔
اگر مسبوق سری رکعت میں شامل ہوا ہے تو تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد ثناء پڑھے گا اور اگر جہری رکعت مںث شامل ہوا ہے تو ثناء نہیں پڑھے گا صحیح قول کے مطابق، بلکہ جب اپنی فوت شدہ رکعت کی ادائیگی کے لئے کھڑا ہوگا اس وقت ثناء پڑھے گا اور اس وقت قراءت کے لئے تعوذ و تسمیہ بھی پڑھے گا منفرد کی طرح۔
(الفقہ الاسلامی وادلتہ، جزء2،ص1229،دار الفکر، سوریۃ، دمشق)
محیط برہانی میں ہے:يجب أن يعلم أن ما يقضي المسبوق أول صلاته حكما، وآخر صلاته حقيقة؛ لأن ما أدرك مع الإمام أول صلاته حقيقة، وآخر صلاته حكما من حيث إن الأول اسم لفرد سابق يكون ما أدرك مع الإمام أولا في حقه حقيقة، ومن حيث إنه آخر في حق الإمام؛ لأن الآخر اسم لفرد لاحق يكون آخرا في حقه حكما تحقيقا للتبعية،
وتصحيحا لاقتداء؛ لأن ما بين أول الصلاة وآخرها مغايرة من حيث الحكم، فإن القراءة فرض في الأوليين نفل في الآخريين، والمغايرة تمنع صحة الاقتداء.
ولما صح الاقتداء علمنا أن ما أدرك مع الإمام آخر صلاته حكما، وإذا كان ما أدرك أول صلاته حقيقة وآخرها حكما، وما يقضي آخره حقيقة أوله حكما، اعتبرنا الحقيقة فيما يقضي وفيما أدرك في حق الثناء فقلنا: بأن المسبوق يأتي بالثناء متى دخل مع الإمام في الصلاة حتى يقع الثناء في محله وهو ما قبل أداء الأركان۔
ترجمہ: یہ بات جاننا ضروری ہے کہ مسبوق جو رکعتیں قضا کرتا ہے وہ حکما اس کی ابتدائی نماز ہوتی ہے اور حقیقۃ آخری، کیوں کہ جو رکعتیں اس نے امام کے ساتھ پائیں وہ حقیقتا اس کی ابتدائی نماز ہوتی ہے اور حکما آخری، اس اعتبار سے کہ لفظ ‘اول’ پہلے آنے والے فرد کا نام ہے تو جو رکعتیں اس نے امام کے ساتھ پائیں وہ اس کے حق میں حقیقتا اول ہیں اور اس اعتبار سے کہ وہ امام کے حق میں آخر ہیں کیوں کہ ‘آخر’ بعد میں آنے والے فرد کا نام ہے، تو وہ رکعتیں اس کے حق میں حکما آخری ہیں، تبعیت کو ثابت کرنے اور اقتدا کے معنی کو درست کرنے کے لیے، کیوں کہ نماز کے اول و آخر کے مابین جو کچھ ہے وہ حکم کے اعتبار سے مغایر ہے، کیوں کہ ابتدائی دو رکعتوں میں قراءت فرض ہے جبکہ آخری کی دو میں نفل ہے اور مغایرت اقتداء کے درست ہونے سے مانع ہے۔
اور جب اقتدا درست ہوگئی تو ہم نے جان لیا کہ جو رکعتیں اس نے امام کے ساتھ پائیں وہ حکما اس کا آخرِنماز ہے اور اس نے جو رکعتیں امام کے ساتھ پائیں جب وہ حقیقتا اس کا اول نماز اور حکما آخر نماز ہے، اور جو وہ بعد میں پڑھتا ہے وہ حقیقتا آخر نماز اور حکما اول نماز ہے، تو ہم نے بعد میں پڑھی جانے والی اور امام کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز میں ثنا کے حق میں حقیقت کا اعتبار کیا، لہذا ہم نے کہا کہ مسبوق ثنا اس وقت پڑھے گا جب وہ امام کے ساتھ نماز میں شامل ہو تا کہ ثنا اپنے محل میں واقع ہو یعنی ادائے ارکان سے پہلے۔
(محیط برہانی، ج2، ص209، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
محیط برہانی میں دوسرے مقام پر ہے:إذا انتهى إلى الإمام وقد سبقه الإمام بشيء من صلاته، هل يأتي بالثناء
وذكر شيخ الإسلام المعروف بخواهر زاده رحمه الله: أنه إن كانت الصلاة صلاة يخافت فيها بالقراءة يأتي بالثناء لا محالة؛ لأنه لو لم يأته بالثناء إنما لا يأتي، كيلا يفوته الاستماع، فإذا كانت الصلاة مما يخافت فيها بالقراءة لا يلزمه الاستماع والثناء ذكر مقصود بنفسه، فيأتي به۔۔۔۔۔ وأما إذا كانت صلاة يجهر فيها بالقراءة إن أدرك الإمام في الركعتين الأخريين، فكذلك الجواب يشتغل بالثناء؛ لأن الإمام يخافت بالقراءة في الأخريين.
وإن كان في الركعتين الأوليين، فقد اختلف فيه المشايخ، منهم من يقول: يشتغل بالثناء، ومنهم من يقول: لا يشتغل بالثناء، بل يستمع القراءة، وإليه كان يميل الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل وهو الأصح، ومنهم من يقول: ينتظر مواضع سكتات الإمام ويأتي بالثناء فيما بينهما حرفا حرفا۔
ترجمہ: مسبوق ثناء پڑھے گا یا نہیں؟شیخ الاسلام خواہر زادہ علیہ الرحمہ نے ذکر کیا ہے کہ اگر نماز سری ہے تو ضرور ثناء پڑھے گا اس لئے کہ اگر ثناء نہ پڑھنے کا حکم دیا جائے گا تو وہ محض اس لئے کہ کہیں ثناء پڑھنے کی وجہ سے استماع( توجہ سے تلاوت سننا) فوت نا ہو جائے، لیکن جب نماز ہی سری ہے تو اس میں استماع (توجہ سے تلاوت سننا) کا فوت ہونا لازم ہی نہیں آئے گا، اور ثناء ایک ایسا ذکر ہے کہ جو بالذات مقصود بھی ہے اس لئے مسبوق (مذکورہ صورت میں) ثناء پڑھے گا۔
اور جب مسبوق جہری نماز کی آخری دو رکعتوں میں شریک ہوا، تو جواب وہی ہے کہ ثناء پڑھے گا اس لئے کے امام جہری نماز کی آخری دو رکعتوں میں قراءت سرا (آہستہ)کرتا ہے، اور اگر مسبوق جہری نماز کی پہلی دو رکعتوں میں شامل ہوا تو اس صورت میں ثناء پڑھنے کے متعلق مشائخ کا اختلاف ہے، بعض علمائے کرام نے فرمایا کہ اس صورت میں ثناء پڑھے گا اور دوسرے بعض علمائے کرام نے فرمایا کہ ثناء نہیں پڑھے گا بلکہ توجہ سے قراءت سنے گا،
اور اسی قول کی طرف شیخ امام ابو بکر محمد بن فضل علیہ الرحمہ مائل ہوئے ہیں اور یہ سب سے زیادہ صحیح قول ہے، اور بعض علمائے کرام نے فرمایا کہ مسبوق امام کے سکتوں کا انتظار کرے گا اور ان سکتوں کے درمیان تھوڑی، تھوڑی کر کے ثناء پڑھے گا۔
(محیط برہانی، ج1، ص272-273، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے:امام نے بالجہر قراء ت شروع کر دی تو مقتدی ثنا نہ پڑھے اگرچہ بوجہ دُور ہونے یا بہرے ہونے کے امام کی آواز نہ سنتا ہو جیسے جمعہ و عیدین میں پچھلی صف کے مقتدی کہ بوجہ دُور ہونے کے قراء ت نہیں سنتے۔۔۔۔۔امام آہستہ پڑھتا ہو تو پڑھ لے۔
(بہار شریعت، جلد1، ص523، مکتبۃ المدینۃ)
واللّٰه تعالی اعلم بالصواب۔
کتبه: ندیم عطاری مدنی حنفی۔
نظر ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری۔