کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ راستے کا کیچڑ پاک ہے یا ناپاک
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
راستے کا کیچڑ پاک ہے جب تک کہ اس کا نجس ہونا معلوم نہ ہو جائے لہذا اگر یہ کسی کپڑے وغیرہ میں لگ جائے تو اس کپڑے کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے اگرچہ اس حصے کو دھو نا بہتر ہے۔
“ردالمحتار علی در المختار” میں ہے:طِينُ الشَّوَارِعِ عَفْوٌ وَإِنْ مَلَأَ الثَّوْبَ لِلضَّرُورَةِ وَلَوْ مُخْتَلِطًا بِالْعَذِرَاتِ وَتَجُوزُ الصَّلَاةُ مَعَهُ
راستے کا کیچڑ ضرورت کی وجہ سے پاک ہے اگرچہ وہ کپڑے کو ڈھانپ لے اور اگرچہ اس میں پاخانہ ملا ہوا ہو اور اس(کپڑے) کے ساتھ نماز جائز ہوگی.
(ردالمحتار ج1 کتاب الطہارت باب الانجاس ص324 مطبوعہ دار الفکر بیروت)
“فتاوی انقروی” میں ہے:طین الشارع ومواطئ الکلاب فیہ طاھر الا اذا رأی عین النجاسۃ قال وھو الصحیح من حیث الروایۃ وقریب المنصوص عن اصحابنا
راستے کا کیچڑ اور اس میں کتوں کی گزرگاہ پاک ہے مگر جب اس میں عینِ نجاست دیکھے۔فرمایا روایت کے اعتبار سے یہی صحیح ہے اور ہمارے اصحاب کی تصریح کے قریب ہے۔
(فتاوٰی انقرویہ ج1 کتاب الطہارۃ ص 4 دار الاشاعۃ العربیۃقندھار افغانستان)
بہار شریعت” میں ہے کہ:راستہ کی کیچڑ پاک ہے جب تک اس کا نجس ہونا معلوم نہ ہو، تو اگر پاؤں یا کپڑے میں لگی اور بے دھوئے نماز پڑھ لی ہو گئی مگر دھو لینا بہتر ہے۔
(بہار شریعت ج1 حصہ دوم ، نجاستوں کے متعلق احکام ص397 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ).
واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
مجیب:ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی
( 1ربیع الاخر 1443ھ بمطابق 07نومبر 2021ء بروز اتوار)