کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ مقتدی نماز میں تاخیر سے شامل ہوا کہ امام کے ساتھ عیدکی تکیبرات ر ہ گئی تھیں تو وہ کیا کرے؟
الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب
عید کی نماز میں اگر کوئی شخص ایک،دو یا تینوں تکبیروں کے بعد شامل ہوا تو نماز شروع کرنے کے بعد پہلے وہ اپنی رہ جانے والی زائد تکبیریں کہے اگرچہ امام قراءت شروع کر چکا ہو،تکبیرات کہنے کے بعد پھر خاموشی سے قراءت سنے گا۔
اگر مقتدی امام کے رکوع میں جانے کے بعد شامل ہوا تو اگر اس کا گمان غالب ہے کہ امام کے رکوع سے اٹھنے سے پہلے زائد تکبیریں کہہ کر امام کو رکوع میں پا لے گا تو کھڑے کھڑے زائد تکبیریں کہے اور پھر رکوع میں امام کے ساتھ شامل ہوجائے اور اگر مقتدی کو یہ گمان غالب ہے کہ کھڑے کھڑے تکبیریں کہے گا تو امام رکوع سے اٹھ جائے گا تو رکوع میں چلا جائے اور رکوع میں بغیر ہاتھ اٹھائے زائد تکبیریں کہے،رکوع میں تکبیریں مکمل کرنے سے پہلے امام کھڑا ہوجائے تو یہ بھی امام کی پیروی کرتے ہوئے کھڑا ہوجائے جو تکبیریں رہ گئیں وہ ساقط ہوجائیں گی۔
شرح منیۃ المصلی میں ہے:”ادرک الامام قد کبر بعض تکبیرات تابعہ وقضی ما فاتہ فی الحال،ثم تابع امامہ و ان ادرکہ وقد شرع فی القراءۃ کبر تکبیر الافتتاح ،واتی بالزوائد برای نفسہ لانہ مسبوق۔۔۔۔۔وان ادرکہ وقدشرع فی الرکوع ان لم یخف فوت الرکوع کبر للافتتاح قائما و اتی بالزوائد ثم تابعہ فی الرکوع۔و ان خاف فوت الرکوع کبر للافتتاح قائما ثم للرکوع،و رکع ثم ان امکنہ الجمع بین التکبیرات و التسبیحات جمع بینھما و الا اتی بالتکبیرات لا غیر۔۔۔۔۔۔وان رفع راسہ قبل ان یتمھا رفع راسہ و سقط عنہ ما بقی۔۔۔۔وان ادرکہ بعد رفع الراس من الرکوع لم یکبر اتفاقا”ترجمہ:اگر کسی نے امام کو اس حال میں پایا کہ وہ بعض تکبیریں کہہ چکا تھا تو نماز میں شامل ہو اور جو تکبیریں رہ گئی ہیں وہ اسی وقت کہے اور پھر امام کی اتباع کرے،اور اگر اس حال میں پایا کہ امام قراءت شروع کر چکا تھا تو تکبیر تحریمہ کہے اور اسی وقت زائد تکبیریں کہے اپنی رائے کے مطابق اس لئے کہ وہ مسبوق ہے،اور اگر اس حال میں پایا کہ امام رکوع میں گیا ہی تھا تو اگر رکوع فوت ہوجانے کا خوف نہیں تو تکبیر تحریمہ کہے پھر کھڑے کھڑے زائد تکبیریں کہے پھر رکوع میں امام کے ساتھ شامل ہو،اور اگر رکوع کے فوت ہوجانے کا خوف ہو تو کھڑے کھڑے تکبیر کہے پھر رکوع کی تکبیر کہتا ہوا رکوع میں چلا جائے،پھر اگر زائد تکبیرات اور رکوع کی تسبیحات کو جمع کرنا ممکن ہو دونوں کو جمع کرے ورنہ صرف تکبیرات کہے اور کچھ نہ کہے،اور اگر امام نے تکبیریں کہنے سے پہلے رکوع سے سر اٹھا لیا تو مقتدی بھی کھڑا ہوجائے اور باقی تکبیریں ساقط ہوجائیں گی،اور اگر امام کے رکوع سے اٹھنے کے بعد شامل ہوا تو بالاتفاق تکبیریں نہیں کہے گا۔
(شرح منیہ المصلی،جلد 2،الفصل السادس فی صلاۃ العید،صفحہ 549،دار الکتب العلمیہ)
بہار شریعت میں ہے :”پہلی رکعت میں امام کے تکبیر کہنے کےبعد مقتدی شامل ہوا، تو اسی وقت تین تکبیریں کہہ لے اگرچہ امام نے قراءت شروع کردی ہو اور تین ہی کہے، اگرچہ امام نے تین سے زیادہ کہی ہوں ،اور اس نے تکبیریں نہ کہی کہ امام رکوع میں چلا گیا تو کھڑے کھڑے نہ کہے بلکہ امام کےساتھ رکوع میں جائے اور رکوع میں تکبیر کہہ لے اور اگر امام کو رکوع میں پایا اور غالب گمان ہے کہ تکبیریں کہہ کر امام کو رکوع میں پالے گا ،تو کھڑے کھڑے تکبیریں کہے پھر رکوع میں جائے،ورنہ اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جائے اور رکوع میں تکبیریں کہے ،پھر اگر اس نے رکوع میں تکبیریں پوری نہ کی تھیں کہ امام نےسر اٹھا لیا تو باقی ساقط ہوگئیں۔
(بہارشریعت،جلد1،عیدین کا بیان،صفحہ 782،مکتبۃالمدینہ کراچی )
و الله اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وسلم
کتبہ: فراز عطاری مدنی بن محمد اسماعیل
نظر ثانی :أبو أحمدمفتی انس رضا عطاری مدنی دامت برکاتہم العالیہ