کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ آج کل جو مکان کی خریدو فروخت میں بیعنامہ میں شرط ہوتی ہے کہ اگر مقررہ مدت تک مشتری نے پیسے نہ دیے تو بیعنامہ ضبط ہوجائے گااور اگر بائع انکار کرے تو ڈبل بیعانہ واپس کرے گا اس کی کیا شرعی حیثیت ہے؟
الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب
اگر خرید وفروخت میں یہ شرط لگائی جائے کہ اگرمشتری مقررہ وقت پر رقم ادا نہ کرے تو بیعانہ ضبط اور اگر بائع انکار کردے تو ڈبل بیعانہ واپس کرے گا تو یہ شرط فاسد ہے ، ایسی شرط پر خرید و فروخت کرنا جائز نہیں ہےاور اس شرط پر عقد کر لیا تو اس عقد کو ختم کرنا اور بیعانہ کی رقم واپس کرنا لازم ہے اور اگر اس شرط پر خریدو فروخت نہیں کی لیکن مشتری مقررہ وقت پر رقم ادا نہ کرسکا اس لئے بیعانہ ضبط کر لینا بھی ناجائز و گناہ اور ظلم ہے کیونکہ اگر واپس نہیں کرتا تو غیر کا مال ناحق طریقے سے لینا لازم آئے گا لہٰذااس کے ذمہ بیعانہ واپس کرنا لازم ہے۔
جیسا کہ باطل طریقے سے مال کھانے کے حرام ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوَالَکُمْ بَیۡنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ترجمہ کنز الایمان : ’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔‘‘
(پارہ 5،سورة النساء ،آیت29)
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ نے اپنے والدِ ماجد سے روایت کی ہے کہ:’’ نَهَی رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم عَنْ بَیْعِ الْعُرْبَانِ.‘‘ ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’بیع عربان‘ سے منع فرمایا ہے۔
’بیع عربان‘ یہی ہے کہ ایک شخص کوئی چیز خریدے اور فروخت کرنیو الے کو اس کی کچھ قیمت اس شرط پر دے کہ اگر خرید و فروخت مکمل ہوجائے تو دی گئی رقم سامان کی قیمت میں شمار کی جائے گی اور بیع مکمل نہ ہوسکے تو خریدار یہ رقم فروخت کرنے والے کے لیے چھوڑ دے گا۔ اس کی وضاحت امام مالک نے ان الفاظ میں کی ہے:’’وَذَلِکَ فِیمَا نَرَی وَاﷲُ أَعْلَمُ أَنْ یَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الْعَبْدَ أَوْ یَتَکَارَی الدَّابَّةَ ثُمَّ یَقُولُ أُعْطِیکَ دِینَارًا عَلَی أَنِّي إِنْ تَرَکْتُ السِّلْعَةَ أَوْ الْکِرَاءَ فَمَا أَعْطَیْتُکَ لَکَ.‘‘
ترجمہ:حقیقی علم اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، مگر ہمارے خیال میں اس (بیع عربان) کا معنیٰ یہ ہے ایک آدمی مثلاً غلام خریدے یا کرائے پر جانور لے تو کہے کہ میں آپ کو ایک دینار دیتا ہوں اس شرط پر کہ اگر میں سامان نہ لوں یا کرائے پر نہ رکھوں تو جو (دینار) میں نے آپ کو دیا ہے وہ آپ کا ہو گا۔
(أبي داود، السنن، کتاب الإجارة، باب فی العربان،ج 3،ص 283، رقم: 3502، بیروت: دار الفکر)
(امام مالک، المؤطأ، کتاب البیوع، باب ما جاء فی بیع العربان،ج 2،ص 609، رقم: 1271، دار احیا التراث العربي مصر)
بیعانہ واپس نہ کرنے کے ظلم ہونے کے بارے میں فتاوی رضویہ میں ہے:”بیشک واپس پائے گا، بیع نہ ہونے کی حالت میں بیعانہ ضبط کرلیناجیسا کہ جاہلوں میں رواج ہے،ظلم صریح ہے۔“
(فتاوی رضویہ ،ج17،ص94،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاہور)
فتاوی فیض رسول میں ہے:”جبکہ بیچنے والے نے خریدار کے انکار کومان لیا اور بیع کا فسخ منظور کر لیا، تو بیعانہ کی رقم واپس کرنا اس پر لازم ہے،اگر نہیں واپس کرے گا ،تو سخت گنہگار حق العبد میں گرفتار ہوگا۔‘‘
(فتاوی فیض رسول،ج2،ص377 ،مطبوعہ شبیر برادرزلاہور)
والله اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وسلم
کتبہ: ابو عبید محمد فیاض نعیمی عطاری
نظرثانی:أبومفتی أحمد انس رضا عطاری مدنی دامت برکاتہم العالیہ
تاریخ:09ستمبر2021