مسجد کے کسی حصے کو دوکان بنا کر اسے کرایہ پر دینا

مسجد کے کسی حصے کو دوکان بنا کر اسے کرایہ پر دینا کیسا ہے؟

الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

عین مسجد یا فنائے مسجد کے کسی حصے کو دوکان میں تبدیل کر دینا تغییرِ وقف سخت حرام،ناجائز و گناہ ہے۔

محیط برہانی میں ہے:” قيم المسجد إذا أراد أن يبني حوانيت في المسجد وفي فنائه لا يجوز، أما المسجد: فلأنه إذا جعل مسكناً يسقط حرمة المسجد، أما الفناء: فلأنه يتبع المسجد. “ یعنی مسجد کا نظام سنبھالنے والا جب ارادہ کرے کہ مسجد یا فنائے مسجد میں دکانیں تعمیر کرے تو یہ جائز نہیں،مسجد میں اس لیے نہیں کہ جب وہ اسے مسکن بنا دے گا تو مسجد کی حرمت پامال ہو گی اور فنائے مسجد میں اس لیے نہیں کہ یہ بھی مسجد کے تابع ہے ۔ 

( المحيط البرهاني في الفقه النعماني،جلد 6 ، صفحہ 215)

بحرالرائق میں ہے:” وفي المجتبى لا يجوز لقيم المسجد أن يبني حوانيت في حد المسجد أو فنائه“  یعنی مجتبی میں ہے کہ مسجد کے منتظم کے لیےجائز نہیں کہ مسجد کی حد یا فنائے مسجد میں دکانیں بنائے۔               

  ( البحر الرائق شرح كنز الدقائق ، جلد5، صفحہ 269)

میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ سے سوال ہوا:”زید نے قبرستان قدیم اہل اسلام کو پاٹ کر ان قبروں کی چھت پر مسجد بنانا اور اس کو ایک مسجد قدیم کے صحن میں داخل کرنے کا قصد کیا ہے اور دروازہ قدیم مسجد کو بھی پاٹ کر اسکے نیچے دکان یا حجرہ بنانا اور چھت کو مسجدکرنا چاہتا ہے، آیا شرعاً زید کویہ منصب ہے اور یہ سقف قبور مسجد ہوجائے گی اور مصلی کو ثواب مسجد ملے گایانہیں؟بینواتوجرواعندا ﷲ تعالٰی

جواباً ارشاد فرمایا:دروازہ پاٹ کر اس کے نیچے دکان بنانا ہرگز جائز نہیں، عالمگیری میں ہے: قيم المسجد لايجوز له ان يبنی حوانيت فی حد المسجد اوفی فنائه ۔ ناظم مسجدکو جائز نہیں کہ وہ مسجد کی حدود میں یا فنائے مسجد میں دکانیں بنائے۔

(فتاویٰ رضویہ جلد16،ص300،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہارشریعت میں فرماتے ہیں:”مسجد ہو جانے کے بعدنہ اُسکے نیچے دکان بنائی جا سکتی نہ اوپر مکان۔  یعنی مثلاً ایک مسجد کو منہدم کرکے  پھر سے اُسکی تعمیر کرانا چاہیں اور پہلے اُسکے نیچے دکانیں نہ تھیں اور اب اس جدید تعمیر میں دکان بنوانا چاہیں تو نہیں بناسکتے کہ یہ تو پہلے ہی سے مسجد ہے اب دکان بنانے کے یہ معنی ہونگے کہ مسجد کو دکان بنایا جائے۔ “ آگے فرماتے ہیں:”مسجد کا کوئی حصّہ کرایہ پر دینا کہ اسکی آمدنی مسجد پرصَرف  ہوگی حرام ہے اگرچہ مسجد کو ضرورت بھی ہو۔“

( بہارشریعت حصہ 10،ص 560،558،مکتبۃ المدینہ)

              و  الله      اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وسلم      

                                           کتبہ      

محمدایوب عطاری               

نظر ثانی  :محمد انس رضا قادری

20 ذوالحجۃ الحرام1441 ھ/31 جولائی 2021 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں