جمعہ کی دوسری اذان کا جواب دینا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جمعہ کی دوسری اذان کا جواب دینا کیسا؟

الجواب بعون الملک الوہاب

جمعہ کی دوسری اذان کا جواب دینا منع ہے۔ اگر اذان کا جواب دینا ہو تو دل میں دیا جاسکتا ہے۔

درمختار میں ہے :” اذا خرج الامام من الحجرۃ ان کان والا فقیامہ للصعود فلا صلٰوۃ ولا کلام الی تمامھا“ ترجمہ: جب امام حجرہ سے نکلے اگر حجرہ ہو، ورنہ جب و ہ منبر پر چڑھنے کے لئے کھڑا ہو تو تمام خطبہ تک نہ نماز ہے اور نہ ہی کلام۔

(در مختار مع شامی جلد 2 صفحہ 158)

ردالمحتار میں ہے :”اجابۃ الاذان حینئذ مکروھۃ نھر الفائق“ ترجمہ: اس وقت اذان کا جواب دینا مکروہ ہے ۔نہر الرائق

(رد المختار جلد 2صفحہ 129)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں اسی طرح کے سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : ہر گز نہ چاہئے یہی احوط ہے ۔ ہاں یہ جوابِ اذان یا دُعا اگر صرف دل سے کریں زبان سے تلفظ اصلاً نہ ہو کوئی حرج نہیں۔

(فتاویٰ رضویہ، جلد 8، صفحہ300)

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب

کتبہ: انتظار حسین عطاری المدنی

نظر ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ

تاریخ : 7 اگست 2021  بمطابق 28 ذوالحجہ 1442ھ بروز ہفتہ

اپنا تبصرہ بھیجیں