کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ جمعہ والے دن کیا اذان ثانی اور اقامت کا جواب دیا جائے گا؟
الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب
مقتدیوں کو جمعہ کی اذان ثانی اور اقامت کا جواب زبان سے نہیں دینا چاہیے کیونکہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خطیب کے منبر پر آنے کے بعد سے ختم نماز تک کوئی بھی کلام نہیں کر سکتے البتہ دل میں جواب دینا بالکل جائز ہے۔خطیب اذان ثانی اور اقامت کا جواب زبان سے بھی دے سکتا ہے۔
ابو داؤد شریف کی حدیث پاک ہے:”ثم أنصت إذا خرج إمامه حتى يفرغ من صلاته”ترجمہ: جب مقتدی کا امام جمعہ کے دن خطبہ کے لئے تو مقتدی خاموش رہے جب تک امام نماز سے فارغ نہ ہوجائے۔
(ابو داؤد،جلد 1،کتاب الطہارہ،باب فی الغسل یوم الجمعہ،صفحہ 258،دار الرسالۃ العالمیہ)
اس کی شرح میں ہے:”و جعل الامر مستمرا الی فراغ الصلاۃ”ترجمہ:خاموش رہنے کے حکم کو نماز سے فارغ ہونے تک کے لئے جاری کردیا ہے۔
(شرح ابو داؤد للرسلان،جلد 2،صفحہ 664،دار الفلاح)
ابن رجب حنبلی لکھتے ہیں:”وقد اختلف في كراهية الكلام بين الخطبة و الصلاة، فكرهه طاوس۔۔۔۔۔۔و أبو حنيفة”ترجمہ:اور تحقیق خطبہ اور نماز کے درمیان کلام کے مکروہ ہونے متعلق فقہاء کرام کا اختلاف ہے،تو امام طاوس اور امام اعظم نے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔
(فتح الباری لابن رجب،جلد 5،کتاب الاذان،باب الکلام اذا اقیمت الصلاۃ،صفحہ 444،مکتبہ الغرباء الاثریہ)
ھدایۃ میں ہے:”اذا خرج الامام یوم الجمعۃ ترک الناس الصلاۃ و الکلام حتی یفرغ من خطبتہ”ترجمہ:جب امام جمعہ کے دن نکلے تو لوگ نماز اور کلام چھوڑ دیں یہاں تک کہ امام اپنے خطبہ سے فارغ ہوجائے۔
(ھدایہ،جلد 1،صفحہ 180)
جوہرہ نیرہ میں ہے:”والمراد مطلق الكلام سواء كان كلام الناس او التسبيح او تشميت العاطس او رد السلام، وفي العيون المراد به إجابة المؤذن أما غيره من الكلام يكره بالاجماع”ترجمہ:مراد مطلق کلام ہے برابر ہے کہ لوگوں کا کلام ہو یا تسبیح ہو یا چھینکنے والے کے لئے دعا ہو یا سلام کا جواب ہو اور عیون میں ہے کہ کلام سے مراد موذن کے کلمات کا جواب دینا ہے لیکن اس کے علاوہ اور کلام بالاجماع مکروہ ہے۔
(الجوهرة النيرة،جلد 1،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ العیدین،صفحہ 92،المطبعہ الخیریہ)
البدائع الصنائع میں ہے”فأما عند الأذان الأخیر حین خرج الإمام إلی الخطبۃ وبعد الفراغ من الخطبۃ حین أخذ المؤذن فی الإقامۃ إلی أن یفرغ ہل یکرہ ما یکرہ فی حال الخطبۃ؟ علی قول أبی حنیفۃ یکرہ”ترجمہ:دوسری اذان کے وقت جب امام خطبہ کے لئے نکلے او رخطبے سے فارغ ہوکر مؤذن اقامت پڑھے،کیا جو فعل خطبہ میں مکروہ ہے اس میں بھی مکروہ ہے؟ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق مکروہ ہے۔
(البدائع الصنائع،کتاب الصلوٰۃ،فصل صلوٰۃ الجمعہ، جلد1،صفحہ264،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے:”مقتدیوں کو خطبے کی اذان کا جواب ہرگز نہ دینا چاہئے یہی احوط ہے۔ہاں اگر یہ جواب اذان یا دعا، اگر دل سے کریں،زبان سے تلفظ اصلا نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔اور امام یعنی خطیب اگر زبان سے بھی جواب اذان دے یا دُعا کرے بلاشبہ جائز ہے ۔
(فتاوی رضویہ،جلد 8، صفحہ300،301،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
اسی جلد کے صفحہ 480 پر لکھتے ہیں:”حضرت امام اعظم رضی ﷲ تعالی عنہ خروج امام سے ختم نماز تک عند التحقیق دینی و دنیوی ہر طرح کے کلام یہاں تک کہ امر بالمعروف و جواب سلام بلکہ مخل استماع ہر قسم کے کام سے منع فرماتے ہیں اگر چہ کلام آہستہ ہو اگرچہ خطیب سے دور بیٹھا ہو کہ خطبہ سننے میں نہ آتا ہو۔
(فتاوی رضویہ،جلد 8،صفحہ 480،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
صفحہ 436 پر لکھا ہے:”اذانِ ثانی کا جواب امام دے مقتدیوں کو ہمارے امام کے نزدیک جائز نہیں صاحبین اجازت دیتے ہیں تبیین الحقائق میں اول کو احوط کہا اور نہایہ اور عنایہ میں ثانی کو واضح ، تو عمل اول ہی پر ہے کہ وہی قولِ امام ہے، اور اگر کوئی ثانی پر عمل کرے تو اس سے بھی نزاع نہ چاہئے کہ تصحیح اُس طرف بھی ہے۔
(فتاوی رضویہ،جلد 8،صفحہ 436،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ : ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی بن محمد اسماعیل
ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ
( مورخہ 8 اگست 2021 بمطابق 28 ذو الحجہ 1442ھ بروز اتوار )