کیا نماز میں ہاتھ باندھنا سنت ہے؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا نماز میں ہاتھ باندھنا سنت ہے؟ ایک شخص کہتا ہے کہ نماز میں ہاتھ نہ باندھنا سنت ہے کیونکہ ایک صحابی ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے چند صحابہ کرام کے سامنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ بیان کیا تو اس میں ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں کیا۔(ابو داؤد)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایة الحق و الصواب

نماز میں سیدھے ہاتھ کو الٹے ہاتھ پر رکھ کر ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے اور یہ کئی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، معترض نے جو ہاتھ چھوڑنے پر دلیل پکڑی ہے وہ چند وجوہات کی بنا پر باطل ہے۔

سوال میں مذکور حدیث پاک سے غلط استدلال کا جواب:

سب سے پہلے ابو داؤد شریف کی وہ روایت ملاحظہ ہو : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ،  وَ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى – وَهَذَا حَدِيثُ أَحْمَدَ – قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ، فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ أَبُو قَتَادَةَ، قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: فَلِمَ؟ فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ بِأَكْثَرِنَا لَهُ تَبَعًا وَلَا أَقْدَمِنَا لَهُ صُحْبَةً، قَالَ: بَلَى، قَالُوا: فَاعْرِضْ، قَالَ: ” كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ يَعْتَدِلُ فَلَا يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلَا يُقْنِعُ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، فَيَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَهْوِي إِلَى الْأَرْضِ فَيُجَافِي يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا، وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ، وَيَسْجُدُ ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ، ثُمَّ يَصْنَعُ فِي الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا كَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي بَقِيَّةِ صَلَاتِهِ حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِي فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ ” ، قَالُوا: صَدَقْتَ هَكَذَا كَانَ يُصَلِّي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔(ابو داؤد، جلد 2، ابواب تفریع استفتاح الصلاۃ، باب افتتاح الصلاۃ،صفحہ 50،دار الرسالۃ العالمیہ)

اس روایت سے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ اس کی چند وجوہات درج ذیل ہیں:

اس حدیث پاک کی سند ہی درست نہیں ہے اور اس کا واضح ثبوت بخاری شریف کی حدیث پاک سے ملتا ہے، بخاری شریف کی حدیث میں سند بھی مختلف ہے اور وہاں یہ الفاظ بھی وضاحت سے مذکور نہیں کہ تکبیر کے بعد ہر ہڈی اپنی جگہ پر آگئی۔بخاری شریف کی حدیث پاک یہ ہے: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، وَحَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ وَيَزِيدَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا مَعَ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْنَا صَلَاةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ : أَنَا كُنْتُ أَحْفَظَكُمْ لِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : رَأَيْتُهُ إِذَا كَبَّرَ جَعَلَ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرَهُ، فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ اسْتَوَى حَتَّى يَعُودَ كُلُّ فَقَارٍ مَكَانَهُ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ، وَلَا قَابِضِهِمَا وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ الْقِبْلَةَ، فَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ جَلَسَ عَلَى رِجْلِهِ الْيُسْرَى، وَنَصَبَ الْيُمْنَى، وَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ قَدَّمَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَنَصَبَ الْأُخْرَى وَقَعَدَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ. وَسَمِعَ اللَّيْثُ يَزِيدَ بْنَ أَبِي حَبِيبٍ، وَيَزِيدُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَلْحَلَةَ. وَابْنُ حَلْحَلَةَ مِنِ ابْنِ عَطَاءٍ. قَالَ أَبُو صَالِحٍ : عَنِ اللَّيْثِ : كُلُّ فَقَارٍ. وَقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ : عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ : قَالَ : حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرٍو ، حَدَّثَهُ : كُلُّ فَقَارٍ۔(بخاری،جلد 1، کتاب الاذان،باب سنۃ الجلوس فی التشہد،صفحہ 266)

معترض کی پیش کردہ ابوداود  کی حدیث پاک کے ایک راوی عبد الحمید بن جعفر کے بارے میں ثقہ اور ضعیف دونوں ہی اقوال ہیں،جن محدثین نے ان کو ضعیف قرار دیا ہے وہ ذکر کرتا ہوں۔

امام طحاوی فرماتے ہیں: ” فَإِنَّهُمْ يُضَعِّفُونَ عَبْدَ الْحَمِيدِ , فَلَا يُقِيمُونَ بِهِ حُجَّةً”ترجمہ: محدثین نے عبد الحمید کو ضعیف قرار دیا ہے تو اس سے دلیل پکڑنا درست نہیں۔ (الطحاوي، شرح معاني الآثار، ٢٢٧/١)

امام بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ ابو داؤد کی اسی حدیث پاک کی شرح میں لکھتے ہیں: ” (اما تضعیفہ لعبد الحمید بن جعفر مردود)  مردود،لان مثل یحی بن سعید طعن فی حدیثہ، وھو امام الناس فی ھذا الباب، و ذکرہ ابن الجوزی فی کتاب (الضعفاء و المتروکین) فقال: کان یحی بن سعید القطان یضعفہ، وکان الثوری یحمل علیہ و یضعفہ”ترجمہ: عبد الحمید بن جعفر کو مردود قرار نہ دینا غلط ہے اس لئے کہ یحی بن سعید جیسے امام الفن نے اس راوی کی حدیث میں طعن کیا ہے، اور ابن جوزی نے اس بات کو کتاب الضعفاء و المتروکین میں بیان کیا ہے، انھوں نے کہا کہ یحی بن سعید القطان عبد الحمید بن جعفر کو ضعیف قرار دیتے تھے، اور سفیان ثوری اس کو ضعیف قرار دیتے تھے۔(شرح سنن ابی داؤد للعینی، جلد 3، صفحہ 320،مکتبہ الرشد)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ” (یہ) حدیث اسناد کے لحاظ سے قابل عمل نہیں ہے۔۔۔۔۔۔عبد الحمید بن جعفر سخت مجروح و ضعیف ہے۔دوسرے محمد ابن عمرو ابن عطاء نے ابو حمید ساعدی سے ملاقات ہی نہیں کی اور کہہ دیا کہ میں نے ان سے سنا ہےلہذا یہ غلط ہے۔درمیان میں کوئی راوی چھوٹ گیا جو مجہول ہے۔ان دو نقضوں کی وجہ سے یہ حدیث ہی  ناقابل عمل ہے۔۔۔۔۔۔۔ابو حمید صحابہ میں نہ تو فقیہ ہیں نہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ صحبت میسر آئی اور حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فقیہہ صحابی ہیں جو حضور کے ساتھ سایہ کی طرح رہے لہذا عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث زیادہ معتبر ہے۔(جاء الحق، صفحہ 414-415، قادری پبلشرز لاہور)

معترض کی پیش کردہ روایت کی فنی حیثیت:

 اس حدیث میں اضطراب سندا و متنا ہے جس کی وجہ سے حدیث میں ضعف آتا ہے جیسا کہ مصطلحات میں مشہور ہے اس میں سندا اضطراب تو یوں ہے کہ محمد بن عمرو کا سماع ابو حمید سے ثابت ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے ہیثم بن عدی، ابن عبد البر اور امام شعبی کے اقوال سے لگتا ہے کہ انکی ملاقات نہیں ہوئی اسی کی طرف امام طحاوی نے اشارہ فرمایا ہے۔

محمد بن عمرو کے بارے میں امام طحاوی نے فرمایا: ”  فَقَدْ فَسَدَ بِمَا ذَكَرْنَا حَدِيثُ أَبِي حُمَيْدٍ  لِأَنَّهُ صَارَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ رَجُلٍ وَأَهْلُ الْإِسْنَادِ لَا يَحْتَجُّونَ بِمِثْلِ هذا”ترجمہ: جو روایات ہم نے ذکر کیں اس سے ابو حمید والی روایت فاسد ہوگئی اس لئے کہ محمد بن عمرو کے بعد ایک راوی مجہول ہے اور محدثین اس طرح کی روایت کو قابل حجت قرار نہیں دیتے۔ (الطحاوي، شرح معاني الآثار، ٢٥٩/١)

متنا اضطراب کے بارے میں علامہ عینی نے ام بیہقی کا قول نقل کیا ہے: ” ان الحدیث مضطرب الاسناد و المتن ” ترجمہ: حدیث میں سندا اور متنا اضطراب ہے۔”شرح سنن ابی داؤد للعینی، جلد 3، صفحہ 321،مکتبہ الرشد)

لہذا معترض کا اس حدیث کو دلیل بنانا درست نہ ہوا کہ یہ ضعیف ہے۔

2- اس روایت میں مذکور بعض صحابہ کرام علیھم الرضوان کا اپنا عمل اس کے مخالف ہے یعنی وہ ہاتھ باندھ کر ہی نماز پڑھتے تھے۔ وہ دس صحابہ رضی اللہ عنھم جن کے سامنے ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے نماز کا طریقہ بیان کیا ان میں سے ایک سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بھی تھے اور وہ ہاتھ باندھنے کے قائل تھے۔

شرح ابو داؤد للرسلان میں اس حدیث پاک کے تحت ہے: ” و سھل بن سعد” ترجمہ: ان دس صحابہ میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بھی تھے۔(شرح سنن ابی داؤد للرسلان، جلد 4، باب افتتاح الصلاۃ، صفحہ 316، دار الفلاح)

بخاری شریف میں ہے: ” عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ” ترجمہ:

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ لوگوں کہ یہ حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں۔

(صحيح البخاري، كِتَابُ الْأَذَانِ، بَابُ وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ)

اس حدیث پاک کے تحت عمدۃ القاری میں ہے:

“لم يبين مَوْضِعه من الذِّرَاع وَفِي حَدِيث وَائِل عِنْد أبي دَاوُد و النَّسَائِيّ  ثمَّ وضع يَده الْيُمْنَى على ظهر كَفه الْيُسْرَى” ترجمہ: ذراع کے کس مقام پر ہاتھ باندھے جائیں اس کا بیان نہیں ہے لیکن وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث جو ابو داؤد و نسائی میں ہے اس میں یہ الفاظ موجود ہیں ” پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سیدھا ہاتھ دوسرے ہاتھ کی پشت پر رکھا”

( عمدة القاري شرح صحيح البخاري، جلد 5، ابوب صفۃ الصلاۃ، باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلاۃ، صفحہ 407، دار الکتب العلمیہ)

اس سے اتنا ضرور ثابت ہوا کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نماز میں ہاتھ باندھنے کے قائل تھے لہذا معترض کا دعوی بالکل باطل ہے۔

 ان دس صحابہ میں ایک روایت کے مطابق ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے تھے۔

بخاری شریف کی دونوں مشہور شروحات عمدۃ القاری اور فتح الباری میں ہے:” و ابو ہریرۃ” ترجمہ: جن دس کا ذکر کیا گیا ہے ان میں ابو ہریرہ بھی تھے۔”(عمدۃ القاری،جلد 6،کتاب الاذان،باب سنۃ الجلوس من التشہد،صفحہ 148، دار الکتب العلمیہ)

ابودائود شریف کی روایت میں ہے:’’ قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ:أَخْذُ الْأَکُفِّ عَلَی الْأَکُفِّ فِی الصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ‘‘ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نماز میں کلائی کو کلائی پر رکھ کے ناف کے نیچے ہاتھ باندھو۔

(سنن أبی داود،کتاب الصلوٰۃ،باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلاۃ،جلد1،صفحہ201،المکتبۃ العصریۃ،بیروت)

اصول حدیث کا عام قاعدہ ہے کہ جب صحابی کا فعل اس کے قول کے مخالف ہو تو اس کے فعل کو ترجیح ہوگی، جس روایت سے استدلال کیا گیا ہے اس میں سہل بن سعد اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنھما کا قول مذکور نہیں ہے تو یہاں بدرجہ اولی ان دونوں کے افعال کو ترجیح ہوگی اور ہاتھ نہ باندھنے پر استدلال بالکل قابل قبول نہیں ہوگا۔

3- اس روایت میں ہاتھ نہ باندھنے پر کوئی دلیل نہیں لیکن بالفرض مان بھی لی جائے تو صحابہ کرام میں اول درجے کے فقہاء مجتہد صحابہ کرام علیھم الرضوان ہاتھ باندھ کر ہی نماز پڑھتے تھے لہذا ان کی بات کو ترجیح ہوگی اور یہ اصول فقہ کا قاعدہ ہے۔

توضیح مع تلویح میں ہے: ” و المعروف اما ان یکون معروفا بالفقہ و الاجتہاد کالخلفاء الراشدین و العبادلۃ ای عبد اللہ ابن مسعود ۔۔۔۔۔۔ و حدیثۃ یقبل وافق القیاس او خالفہ” ترجمہ: معروف راوی فقہ اور اجتہاد میں بھی معروف ہونگے جیسے خلفاء راشدین اور عبادلۃ جیسے عبد اللہ بن مسعود وغیرہ ان کی حدیث چاہے قیاس کے مطابق ہو یا مخالف ہمارے نزدیک ہر صورت میں قبول کی جائے گی۔(توضیح مع تلویح، جلد 2، صفحہ 8، قدیمی کتب خانہ)

خلفاء راشدین میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق تو ابو داؤد ہی میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کو سنت فرماتے تھے۔

سنن ابو داؤد میں ہے: ” حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ زِيَادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِى جُحَيْفَةَ أَنَّ عَلِيًّا رضى الله عنه قَالَ السُّنَّةُ وَضْعُ الْكَفِّ عَلَى الْكَفِّ فِى الصَّلاَةِ تَحْتَ السُّرَّةِ” ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر ناف کے نیچے ہاتھ باندھے جائیں۔

(سنن ابی داؤد، باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلوۃ،جلد 1، صفحہ 201،المکتبة العصریة، بیروت )

اسی طرح عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق سنن نسائی میں ہے:” عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ رَآنِيَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ وَضَعْتُ شِمَالِي عَلَی يَمِينِي فِي الصَّلَاةِ فَأَخَذَ بِيَمِينِي فَوَضَعَهَا عَلَی شِمَالِي”

ترجمہ: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے مجھے دیکھا کہ میں نماز میں اپنا بایاں ہاتھ اپنے داہنے ہاتھ پر رکھے ہوئے تھا، تو آپ  ﷺ  نے میرا داہنا ہاتھ پکڑا اور اسے میرے بائیں ہاتھ پر رکھ دیا۔(نسائی،جلد 1،کتاب الصلاۃ،باب فی الامام اذ رای الرجل قد وضع شمالہ علی یمینہ،صفحہ 141)

4-عدم ذکر عدم وجود کو مسلتزم نہیں۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” قَالَ : ” إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، وَافْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا ” ترجمہ: جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، اس کے بعد جتنا قرآن تم کو یاد ہو اس کو پڑھو، پھر رکوع کرو، یہاں تک کہ رکوع میں اطمینان سے ہوجاؤ، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہوجاؤ پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ میں اطمینان سے ہوجاؤ، پھر سر اٹھاؤ، یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرو۔(صحيح البخاري، كِتَابُ الْأَذَانِ ،بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ،صفحہ 187،دار ابن کثیر)

اس حدیث پاک میں وضو کرنے اور قبلہ کی طرف رخ کرنے کا ذکر نہیں ہے مگر اس کے متعلق کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ نماز میں وضو نہ کرنا سنت ہے یا قبلہ کو رخ نہ کرنا سنت ہے البتہ دوسری حدیث پاک میں وضاحت ہے کہ وضو کامل کرو اور قبلے کی منہ رکھو۔

5- اس روایت میں نماز سے باہر آنے کا طریقہ بھی ذکر نہیں کیا گیا اگر معترض کی بات مانی جائے تو پھر نتیجہ یہ نکلے گا کہ سلام پھیرنا بھی سنت نہیں حالانکہ یہ امت میں کسی کا بھی مذہب نہیں۔

6- یہ روایت ہاتھ باندھنے والی روایات کے خلاف نہیں مگر مان بھی لیا جائے تو رفع تعارض کے طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ دونوں میں تطبیق کردی جائے۔(نخبۃ الفکر،صفحہ 251،دار ابن حزم) اور اس روایت کی اصل بخاری شریف میں ہے۔ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: “اصله فی البخاری” ترجمہ: ابو حمید الساعدی والی روایت کی اصل بخاری میں ہے۔(الدرایۃ،صفحہ 157)

لہذا بخاری شریف والی روایت کو دیگر ہاتھ باندھنے والی روایتوں کے ساتھ جمع کیا جائے گا تو وہ احادیث اس کی تفصیل ہوجائیں گی۔

7- امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ہاتھ باندھنے کے حوالے سے باقاعدہ باب باندھا ہے اس لئے ہاتھ باندھنے کی بالکل نفی کرنا باطل ہے۔

ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر دلائل:

مصنف ابن ابی شیبہ کی حدیث پاک ہے:’’حدثنا وکیع عن موسیٰ بن عمیر عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن ابیہ قال رایتُ النبیَ صلی اللہ لیہ وآلہ وسلم وَضعَ یَمینہ عَلی شمالہ فی الصلوٰۃ تحت السرۃ‘‘ترجمہ: وائل بن حجر اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ علیہ السلام نماز میں دائیاں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھ کر زیرِ ناف باندھتے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ،جلد1،صفحہ390)

اعلی حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: امام علامہ قاسم بن قطلو بغاحنفی رحمہ اﷲ تعالی اختیار شرح مختار کی احادیث کی تخریج کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کی سند جید اور تمام راوی ثقہ ہیں۔(فتاوی رضویہ،جلد 6،صفحہ 144،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

اسی میں ہے: “حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ زَيْدٍ السُّوَائِيِّ ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: مِنْ سُنَّةِ الصَّلاَةِ وَضْعُ الأَيْدِي عَلَى الأَيْدِي تَحْتَ السُّرَرِ” ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نماز کی سنت میں سے ہے(سیدھے ) ہاتھوں کو (بائیں) ہاتھوں پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 3،وضع الیمین علی الشمال،صفحہ 342، مکتبة الرشد الریاض)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمانا کہ یہ سنت سے ہے اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ناف کے نیچے ہاتھ باندھا کرتا تھے۔

علامہ ابن الصلاح نے فرمایا : ” وهكذا قول الصحابي : ( من السنة كذا ) فالأصح أنه مسند مرفوع لأن الظاهر أنه لا يريد به إلا سنة رسول الله صلى الله عليه و سلم” ترجمہ: صحابی کے قول ”من السنة كذا“ کا صحیح مطلب یہ ہے کہ حدیث مرفوع ہے کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ صحابی ”سنت“ کا لفظ بول کر  سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی مراد لیتے ہے۔(مقدمة ابن صلاح ،صفحہ 50، دار الفکر المعاصر بیروت)

کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال میں علاء الدین علی بن حسام الدین (المتوفی975ھ) رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں:  ’’عن علی قال :ثلاثۃ من أخلاق الأنبیاء :تعجیل الإفطار، وتأخیر السحور، ووضع الأکف تحت السرۃ فی الصلاۃ‘‘ ترجمہ:حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:تین چیزیں انبیاء علیہم السلام کے اخلاق میں سے ہے: افطار میں جلدی کرنا، سحری میں تاخیر کرنا اور نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا۔                    (کنز العمال،کتاب المواعظ ،الثلاثی ،جلد16،صفحہ230،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت)

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ : ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی عفی عنہ بن محمد اسماعیل

اپنا تبصرہ بھیجیں