روزانہ سو نفلی کی منت مانی اور نہ پڑھ سکے تو شرعی حکم

روزانہ سو نفلی کی منت مانی اور نہ پڑھ سکے تو شرعی حکم

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے یہ منت مانگی کہ اگر فلاں کام ہوگیا تو روزانہ سو نفل پڑھوں گا۔ اب منت پوری ہوگئی تو اتنےنفل روزانہ پڑھنے میں سستی ہوتی ہے۔کیا اس کا کوئی کفارہ ہے ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

پوچھی گئی صورت کا حکم شرع یہ ہے کہ جب عبادت اور اطاعت الٰہی والے کام کی منت مانی اور اسے ایسی شرط کے ساتھ معلق کیا جس کا ارادہ و چاہت رکھتا ہو تو اس منت کو پورا کرنا واجب ہے،کفارہ نہیں دے سکتا۔ لہذا زیداگر کسی دن غفلت و بیماری وغیرہ کے سبب سو رکعات نفل کی نذر پوری نہ کر سکا تو بعد میں قضا کرے۔

اللّٰہ پاک نے ارشاد فرمایا:

”وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ“

ترجمۂ کنزالعرفان: اور اپنی منتیں پوری کریں۔ (سورہ حج،آیت:29)

تفسیر صراط الجنان میں ہے:

اور جو منتیں انہوں نے مانی ہوں وہ پوری کریں۔(تفسیر صراط الجنان،ج6،پ17،سورہ حج،آیت:29، مکتبۃ المدینہ)

مشکوٰۃ المصابیح میں بخاری کے حوالے سے ہے:

”وَعَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللّٰهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلَا يَعْصِهِ”. رَوَاهُ البُخَارِيُّ“

روایت ہے حضرت عائشہ سے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص اﷲ کی اطاعت کی نذر مانے وہ اس کی اطاعت کرے اور جو اس کی نافرمانی کی نذر مانے وہ نافرمانی نہ کرے اسے امام بخاری نے روایت کیا۔(مشکوٰۃ المصابیح، باب النذور، فصل اول،ج2، ص306،رقم:3278، مطبوعہ لاہور)

مرآۃ المناجیح میں ہے:

” کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت تو ویسے بھی کرنی چاہیےاور جب نذر مان لی تو بدرجہ اولیٰ کرنی چاہیے۔“(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح،جلد:5،فصل اول، حدیث نمبر:3427)

سنن نسائی میں ہے:

”عن عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ النَّذْرُ نَذْرَانِ فَمَا كَانَ مِنْ نَذْرٍ فِي طَاعَةِ اللَّهِ فَذَلِكَ لِلَّهِ وَفِيهِ الْوَفَاءُ وَمَا كَانَ مِنْ نَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ فَذَلِكَ لِلشَّيْطَانِ وَلَا وَفَاءَ فِيهِ وَيُكَفِّرُهُ مَا يُكَفِّرُ الْيَمِينَ“

ترجمہ:عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا :’’ نذر دو طرح کی ہوتی ہے : جو نذر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے بارے میں ہو، وہ تو اللہ کے لیے ہے اور اسے پورا کرنا چاہیے اور جو نذر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے بارے میں ہو،وہ شیطان کے لیے ہے اسے پورا نہیں کیا جائے گا،البتہ اس کا کفارہ قسم کے کفارے کی طرح ہو گا ۔( سنن النسائي ‘‘ ، کتاب الأیمان و النذور، باب کفارۃ النذر، الحدیث :385، صفحہ427)

بدائع الصنائع میں ہے:

”فثبت أن حکم النذر الذی فیہ تسمیۃ ھو وجوب الوفاء بما سمی وسواء کان النذر مطلقا أو مقیداً معلقاً بشرط بأن قال ان فعلت کذا فعلی للہ حج أو عمرۃ أو صوم أو صلوۃ أو ما اشبہ ذلک من الطاعات حتی لو فعل ذلک یلزمہ الذی جعلہ علی نفسہ ولم یجز عنہ کفارۃ وھذا قول أصحابنا ۔رضی الله عنھم “

ترجمہ:پس ثابت ہوا ایسی نذر کا حکم جس میں کوئی چیز مقرر کی ہو وہ یہ ہے کہ اس چیز کو پورا کرنا واجب ہے جو مقرر کی گئی ہے برابر ہے کہ نذر مطلق ہو یا مقید ہو شرط کے ساتھ معلق کی صورت ہےکہ کسی نے کہا اگر میں نے ایسا کیا تو الله کے لئے مجھ پر حج ہے یا عمرہ ہے یا روزہ ہے یا نماز ہے یا اس کے مشابہ طاعات میں سے یہاں تک کہ اگر اس نے وہ کام کیا تو اس کو اپنے نفس پر لازم کی ہوئی چیز واجب ہو جائے گی اس کے بدلے میں کفارہ جائز نہیں یہ ہی قول ہے ہمارے ائمہ احناف کا۔( بدئع الصنائع ،ج5، ص90،فصل فی حکم النذر،دارالکتب العلمیہ بیروت)

تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:

”(ثم إن) المعلق فيه تفصيل فإن (علقه بشرط يريده كأن قدم غائبي) أو شفي مريضي (يوفي) وجوبا (إن وجد) الشرط“

پھر جو نذر شرط پر معلق ہو اس میں تفصیل ہے اگر ایسی شرط پر معلق کیا کہ جس کا ارادہ کرتا ہے جیسا کہ غائب آدمی آئے یا میرا مریض شفا پائے تو شرط پائے جانے پر نذر پوری کرنا واجب ہے۔(درمختار مع ردالمختار،کتاب الأیمان،مطلب فی احکام النذر،3/ 738، دار الفکر بیروت)

بہار شریعت میں ہے:

”(منت کی)پہلی صورت یعنی جس میں کسی شے کے ہونے پر اوس کام کو معلق کیا ہواس کی دوصورتیں ہیں۔ (پہلی یہ کہ)اگر ایسی چیز پر معلق کیا کہ اوس کے ہونے کی خواہش ہے مثلاً اگر میرا لڑکا تندرست ہوجائے یا پردیس سے آجائے یا میں روزگار سے لگ جاؤں تو اتنے روزے رکھوں گا یا اتنا خیرات کروں گا ایسی صورت میں جب شرط پائی گئی یعنی بیمار اچھا ہوگیا یا لڑکا پردیس سے آگیا یا روزگار لگ گیا تو اوتنے روزے رکھنا یا خیرات کرنا ضرور ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ کام نہ کرے اور اس کے عوض میں کفارہ دیدے۔“(بہار شریعت،حصہ9،منت کا بیان،مسئلہ:1، مکتبۃ المدینہ کراچی)

فتاوی امجدیہ میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ہے :

”صورت مذکورہ میں ہر روز دس رکعات نمازواجب ہے اور ایام حیض ونفاس کی نمازیں یا جن دنوں میں کسی مرض وغیرہ کی وجہ سے نہ پڑھی ہوں ان کی قضاء واجب ہے اس سے بچنے کی کوئی صورت کتب فقہ میں مذکور نہیں یوں ہی استغفار بھی نماز کے قائم مقام نہیں ہو سکتا جب تک زندہ ہے یہی حکم ہے کہ پڑھے۔“( فتاوی امجدیہ،جلد 2 ، باب النذر ، صفحہ310 ،مکتبہ رضویہ، آرام باغ ،کراچی)

اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فتاوی فیض الرسول میں ہے:

”صورت مسئولہ میں اگر پھر بیمار ہو گئی تو تندرست ہو جانے کے بعد سال میں جتنے جمعے کے روزے چھوٹ گئے ہیں ان کی قضا رکھے کہ اس قسم کی منت میں روزہ نہ رکھنا اور اس کے عوض میں کفارہ دینا جائز نہیں۔ ھٰکذا فی کتب الفقہ۔“(فتاوی فیض الرسول،ج2،قسم و نذر کا بیان،ص339-340،شبیر برادرز لاہور)

واللّٰہ تعالٰی اعلم ورسولہ اعلم باالصواب

صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ و آلہ و اصحابہ و بارک و سلم

ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

25صفر1445ھ

12ستمبر2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں