مروجہ منتوں کی شرعی حیثیت
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ منت کے حوالے سے شرعی راہنمائی درکار ہے کہ آجکل کئی منتیں عوام میں رائج ہیں جیسے بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے معجزہ پڑھانے کی منت،امام حسین کا فقیر بنانےکی منت یونہی مزارات پر منت مانی جاتی ہے کہ میرا فلاں کام ہوگیا تو مزار پر دیگ تقسیم کروں گا وغیرہ۔ ان منتوں کا شرعی کیا حکم ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب
1۔ جنابِ سیّدہ کی کہانی یا معجزہ وغیرہ مَن گھڑت کہانیوں کا پڑھنا اور ان کی منّت ماننا جائز نہیں۔ اگر کسی نے ان کے پڑھنے کی منّت مانی ہے تو اس منّت کا پورا کرنا بھی جائز نہیں ہے۔کیونکہ ایسے من گھڑت قصے پڑھنا گناہ ہے اور گناہ کے کام کی کوئی منت نہیں اسکی صراحت حدیث میں موجود ہے۔
2۔امام حسین رضی اللہ عنہ کا نام لے کر گلی محلے کے لوگوں کا منگتا، بھکاری بننا اور لوگوں سے بھیک مانگنا حرام ہے کیونکہ بلاضرورتِ شرعی بھیک مانگنا،ناجائزوحرام ہےاورسوال میں بیان کردہ صورت جس طرح لوگوں میں رائج ہےاس اعتبارسےیہ مَنت باطل وممنوع اورجہالت پرمبنی ہےاوراسےپورانہ کرنالازم ہے۔ اس طرح بھیک مانگناحرام ہے اورایسوں کودینابھی حرام ہےکہ یہ(بھیک مانگنےکے)گناہ پرمددکرناہے۔
3۔کسی درگاہ شریف کی دیگ کا لنگر عموما امیر و غریب سبھی کے لئے ہوتا ہے، یوں فقرا کی تخصیص کے بغیر سبھی کو کھلانے کی جنس سے شرعا کوئی فرض یا واجب نہیں جبکہ منت شرعی کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کی جنس سے کوئی فرض یا واجب ہو لہذا اس منت کا پورا کرناضروری نہیں البتہ یہ عرفی منت بھی پوری کرنی چاہیے کہ اسے پورا کرنا بہتر ہے ۔
سنن نسائی میں ہے:
”قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم لانذرفی معصية“
ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ گناہ کےکام میں کوئی منت نہیں ہے۔(سنن نسائی،کتاب الایمان والنذور،جلد2،صفحہ148،مطبوعہ لاھور)
صحیح البخاری میں ہے
”قال النبی صلى الله عليه وسلم من نذران يطيع الله فليطعه،ومن نذران يعصيه فلايعصه“
ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ جواللہ کی اطاعت کی منت مانے،تواطاعت کرے(یعنی منت کوپوراکرے)اوراگر اللہ کی نافرمانی کی منت مانے،تونافرمانی نہ کرے(یعنی وہ ناجائزکام نہ کرے)۔(صحیح البخاری،کتاب الایمان،والنذور،جلد2،صفحہ991،مطبوعہ کراچی)
امیر اہلسنت فرماتے ہیں :
”دس بیبیوں کی کہانی، جنابِ سیّدہ کی کہانی وغیرہ مَن گھڑت کہانیوں کا پڑھنا اور ان کی منّت ماننا جائز نہیں۔ اگر کسی نے ان کے پڑھنے کی منّت مانی ہے تو اس منّت کا پورا کرنا بھی جائز نہیں ہے۔“(مدنی مذاکرہ،5محرم الحرام 1441ھ)
حدیث پاک میں ہے:
”عن النبی صلى الله عليه وسلم قال لاتحل الصدقةلغنی،ولالذی مرةسوی“
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ مالداراورتندرست کےلئےصدقہ حلال نہیں ہے۔(سنن ابوداؤد،کتاب الزکوۃ،باب من یعطی من الصدقہ،جلد1،صفحہ242،مطبوعہ لاھور)
اس حدیث پاک کےبارےمیں مبسوط سرخسی میں ہے
”يعنی لايحل السؤال للقوی القادرعلى التكسب“
ترجمہ:یعنی جوشخص کمانےپرقادرہو،اس کےلئےمانگناجائزنہیں ہے۔(المبسوط للسرخسی،باب الصلح،کتاب الکسب،جلد30،صفحہ271،مطبوعہ کوئٹہ)
بھیک مانگنےکےبارےمیں اعلی حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمٰن ارشادفرماتےہیں:
”گدائی(بھیک مانگنا)تین قسم(کی)ہے: ایک غنی مالدار، جیسےاکثرجوگی اورسادھوبچے،انہیں سوال کرناحرام اورانہیں دیناحرام۔دوسرےوہ کہ واقع میں فقیرہیں،قدرِنصاب کےمالک نہیں،مگرقوی وتندرست کسب پرقادرہیں اورسوال کسی ایسی ضرورت کےلئےنہیں،جوان کےکسب سےباہرہو،کوئی حرفت یامزدوری نہیں کی جاتی،مفت کاکھاناکھانےکےعادی ہیں اوراس کےلئےبھیک مانگتےپھرتےہیں،انہیں سوال کرناحرام اورجوکچھ انہیں اس سےملے،وہ ان کےحق میں خبیث۔انہیں بھیک دینامنع ہےکہ معصیت پراعانت ہے،لوگ اگرنہ دیں،تومجبورہوں،کچھ محنت مزدوری کریں۔تیسرےوہ عاجز ناتواں کہ نہ مال رکھتےہیں،نہ کسب پرقدرت،یا جتنےکی حاجت ہے،اتناکمانےپرقادرنہیں،انہیں بقدرِحاجت سوال حلال اوراس سےجوکچھ ملے،ان کےلئےطیب اوریہ عمدہ مصارفِ زکوۃسےہیں اورانہیں دیناباعثِ اجرِعظیم،یہی ہیں،وہ جنہیں جھڑکناحرام ہےواللہ تعالی اعلم۔“
اعلی حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمٰن سےسوال ہواکہ یہ مرادمانگناکہ اگربچہ زندہ رہا،توہم دس برس تک اسےامام حسین رضی اللہ عنہ کافقیربنائیں گے،ایساکرناکیسا؟
توآپ علیہ الرحمۃ نےجواباًارشادفرمایا:”فقیربن کربلاضرورت ومجبوری بھیک مانگناحرام،کمانطقت بہ احادیث مستفیضۃ(جیساکہ بہت سی مشہور ومعروف حدیثیں اس معنی پرناطق ہیں)اورایسوں کودینابھی حرام،لانہ اعانۃعلی المعصیۃ کمافی الدرالمختار(کیونکہ یہ گناہ کےکام پردوسرےکی مددکرناہے،جیساکہ درمختارمیں ہے)اوروہ منت ماننی کہ دس برس تک ایساکریں گے، سب مہمل وممنوع ہے۔قال صلی اللہ علیہ وسلم لانذرفی معصیۃ“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا:گناہ کےکام میں کوئی منت نہیں ہے۔“ (فتاوی رضویہ،جلد24،صفحہ494،رضافاؤنڈیشن،لاهور)
بہارشریعت میں ہے:
”محرم میں بچوں کوفقیربنانے۔۔کی منت سخت جہالت ہے،ایسی منت ماننی نہ چاہیےاورمانی ہو،توپوری نہ کرے۔“ (بهارشریعت،جلد2،صفحہ318،مکتبۃالمدینہ،کراچی)
فتویٰ شامی میں ہے:
”ومن نذر نذرا مطلقاً او معلقا بشرط و کان من جلسہ واجب ای فرض کما سیصرح بہ للبحر والدور وھو عبادۃ مقصودۃ“
جس نے مطلق نذر مانی یا شرط کے ساتھ معلق نذر مانی اور اس کی جنس سے واجب یعنی فرض ہو جیسا کہ تصریح کی گئی ہے البحر اور الدرر میں ہے وہ عبادات مقصودہ ہو۔(فتویٰ شامی, جلد 6 ,صفحہ 764 مطبوعہ کوئٹہ )
بدائع الصنائع میں ہے:
”ومن مشايخنا من أصل في هذا أصلا فقال: ما له أصل في الفروض يصح النذر به“
ترجمہ:اور ہمارے مشائخ نے فرمایا اس میں اصل یہ ہے کہ وہ اصل(فرض) کی قبیل سے ہو پس اگر وہ فرائض کی اصل سے نہیں تو اس کی نذر ماننا صحیح نہیں۔(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع جلد 5 صفحہ 82 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)
فتویٰ رضویہ میں ہے:
”مساجد میں جو شیرینی لے جائیں گے یا نمازیوں کو کھلائیں گے یہ کوئی نذر شرعی نہیں جب تک خاص فقراء کے لیے نہ کہے اسے امیر فقیر جس کو دے سب لے سکتے ہیں۔(فتویٰ رضویہ جلد 13 صفحہ 585 مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)
فتویٰ مصطفویہ میں ہے:
”اس منت میں کوئی حرج نہیں کہ اگر ایسا ہوا تو میں سیدی نامدار سیدنا مزار قدس سرہ یا فلاں بزرگ کی نذر و نیاز کروں گا حضرت کے مزار پر حاضر کروں گا یہ چیز چڑھاؤں گا۔“(فتویٰ مصطفویہ ،صفحہ 467 ،مطبوعہ ،شبیر برادرز)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ : غلام رسول قادری مدنی
28صفر المظفر1445
15ستمبر2023