چیونٹیوں کو بلاوجہ مارنا

چیونٹیوں کو بلاوجہ مارنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ بلاوجہ چیونٹیوں کو مارنا شرعا کیسا ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

صورت مسئولہ کے مطابق اگر چیونٹی باعث اذیت ہو تو تب ہی اس کو مارنا جائز ہے مگر جلانا یا اس پر پانی بہا دینا تب بھی مکروہ ہے اور اگر یہ ایذاء کا سبب نہیں کہ کاٹتی نہیں تو بلاوجہ اس کو مارنا مکروہ ہے۔

صحیح البخاری میں ہے

”قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “قَرَصَتْ نَمْلَةٌ نَبِيًّا مِنَ الأَنْبِيَاءِ، فَأَمَرَ بِقَرْيَةٍ النَّمْلِ فَأُحْرِقَتْ، فَأَوْحَى اللّٰهُ تَعَالٰى إِلَيْهِ: أَنْ قَرَصَتْكَ نَمْلَةٌ أَحْرَقْتَ أُمَّةً مِنَ الأُمَمِ تُسَبِّحُ؟“

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ایک چیونٹی نے نبیوں میں سے کسی نبی کو کاٹ لیا تو انہوں نے چیونٹیوں کی بستی جلانے کا حکم دیا۔ تووہ جلادی گئی ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کی کہ آپ کو ایک چیونٹی نے کاٹا تھا اور آپ نے امتوں میں سے ایک امت کو جلادیا جو تسبیح پڑھتی ہے ۔(صحیح البخاری جلد 4 صفحہ 62 مطبوعہ کراچی /سنن ابو داؤد جلد 2 حدیث 5265 مطبوعہ کراچی)

مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح میں ہے :

”چیونٹیوں کی بستی سے مراد ان کے اجتماع کی جگہ ہے جہاں بہت چیونٹیاں رہتی ہیں۔یہاں (صاحب)مرقات نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا تھا کہ مولیٰ تو کفار کی بستیوں پر عذاب بھیجتا ہے حالانکہ ان میں بعض مؤمنین بلکہ صالحین بھی ہوتے ہیں وہ کیوں تباہ کردیئے جاتے ہیں؟ تب وہ ایک درخت کی جڑ میں گئے ۔ٹھنڈی ہوا تھی سوگئے سوتے ہی ایک چیونٹی نے کاٹ لیا جس سے انکی نیند اچاٹ ہوگئی۔ تب انہوں نے وہ چیونٹیوں کا کھڈ ہی جلوادیا یعنی رب تعالیٰ نے خود ہی ان کے عمل شریف سے ان کو جواب سمجھادیا۔

ان کے دین میں موذی جانوروں کا زندہ جلادینا جائز ہوگا اس لیے ان پر عتاب نہ ہوا،اسلام میں زندہ کو جلانا ممنوع ہے،نیز ہمارے ہاں چار جانوروں کو مارنا ممنوع ہے جن میں چیونٹی بھی ہے جیساکہ دوسری فصل میں آوے گا۔خیال رہے کہ اگر موذی جانور کو بغیر زندہ جلائے مارنا ممکن نہ ہو تو اسے جلا ڈالنا جائز ہے۔ جیسے چار پائی کے کھٹمل،سوراخ میں گھسا ہوا سانپ جو کھولتے پانی سے مارے جاتے ہیں یا بھڑوں کا چھتہ جو آگ سے جلایا جاتا ہے کہ اس کے بغیر ان کو مارنا ممکن نہیں اگرچہ ہر چیز رب تعالٰی کی تسبیح کرتی ہے،مگر چیونٹی تسبیح بھی کرتی ہے اور بے ضرربھی ہے،جو چیونٹی نقصان پہنچائے یا کاٹ کھائے اسے مار دینا جائز ہے،کبھی چیونٹی کا کاٹا جوں سے زیادہ سخت ہوتا ہے اس کا قتل جائز ہے جیسے بلی کا قتل جائزنہیں لیکن موذی بلی کا قتل جائز ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 حدیث نمبر:4122 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

سنن ابن ماجہ میں ہے

”‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِ الصُّرَدِ، ‏‏‏‏‏‏وَالضِّفْدَعِ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّمْلَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْهُدْهُدِ “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لٹورا ( ایک چھوٹا سا پرندہ ) مینڈک، چیونٹی اور ہُد ہُد کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔(ابن ماجہ جلد 2 حدیث 3223 مطبوعہ کراچی)

الفتاوى الهندية میں ہے

”قتل النملة تكلموا فيها والمختار أنه إذا ابتدأت بالأذى لا بأس بقتلها وإن لم تبتدئ يكره قتلها واتفقوا على أنه يكره إلقاؤها في الماء وقتل القملة يجوز بكل حال كذا في الخلاصة“

ترجمہ:اور چیونٹی کو قتل کرنے میں کلام ہے اور مختار یہی ہے کہ اگر وہ اذیت پہنچائے تو اس کو مارنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر وہ اذیت نہیں پہنچاتی تو اسے مارنا مکروہ ہے اور اس پر اس کا اتفاق ہے کہ اسے پانی میں بہانا مکروہ ہے اور کھٹمل کو مارنا ہر صورت میں جائز ہے جیسا کہ خلاصہ میں ہے۔(الفتاوى الهندية جلد 5 صفحہ 361 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

منحة السلوك في شرح تحفة الملوك میں ہے

”(ويكره قتل النملة، ما لم تبتدي بالأذى) لأن قتل الحيوان إنما يجوز لغرض صحيح، فإذا لم يؤذ: لا يقتل..“

اور چیونٹی کو بلاوجہ مارنا مکروہ ہے جب کہ اذیت نہ دیتی ہوں حیوانات کو صحیح غرض کی بناء پر مارنا جائز ہے اور اگر اذیت نہیں دیتے تو انہیں نہ مارا جائے۔(منحة السلوك في شرح تحفة الملوك صفحہ 425 مطبوعہ بیروت)

البحر الرائق میں ہے

”وقتل النملة قيل لا بأس به مطلقا وقيل إن بدأت بالأذى فلا بأس به وإن لم تبتدئ يكره وهو المختار ويكره إلقاؤها في الماء

ترجمہ:اور چیونٹی کو مارنے میں کوئی حرج نہیں جب کہ وہ اذیت کا باعث ہو اور اگر اذیت نہیں دیتی تو مارنا مکروہ ہے اور یہی مختار ہے اور اسے پانی میں بہانا مکروہ ہے۔(البحر الرائق جلد 8 صفحہ 232 مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی)

بہار شریعت میں ہے :

چیونٹی نے ایذا پہنچائی اور مار ڈالی تو حرج نہیں ورنہ مکروہ ہے، جوں کو مار سکتے ہیں اگرچہ اوس نے کاٹا نہ ہو اور آگ میں ڈالنا مکرو ہ ہے“(بہار شریعت جلد 3 حصہ 16صفحہ 658 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

واللہ و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ بابر عطاری مدنی اسلام آباد

14ربیع الاول1445/ 2اکتوبر2023

اپنا تبصرہ بھیجیں