موت کی دعا کرنا

موت کی دعا کرنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ دنیاوی آزمائشوں سے تنگ آکر موت کی دعا کرنا کیسا ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

دنیاوی آزمائشوں سے تنگ آکر موت کی دعا کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ ایک مسلمان کا طویل زندگی پانا اور اس میں نیک اعمال کرنا سعادت کا باعث ہے البتہ اگر اللہ تعالیٰ سے ملاقات، نبی پاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت وملاقات یا نیک صالح بزرگوں سے ملاقات یا جب اس کے دِین میں نقصان ہو رہا ہو تب موت کی تمنّا کرے تو جائز ہے اور بندہ جب زندگی سے تنگ آجائے تو اللہ پاک کی رحمت کا امید وار رہے اور اللہ پاک سے اچھا گمان رکھے۔

(ہاں یوں بھی دعا کی جاسکتی ہے اے مالک و مولا جب تک زندگی میرے حق میں بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب موت میرے حق میں بہتر ہو تو موت دے دینا۔)

صحیح بخاری میں ہے:

’’لا یتمنین احدکم الموت من ضرّ اصابہ فان کان لا بدّ فاعلاً،فلیقل اللھم احیینی ما کانت الحیاۃ خیرا لی و توفنی اذا کانت الوفاۃ خیراًلی‘‘

ترجمہ:نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی بھی مصیبت کے پہنچنے کی وجہ سے مو ت کی آرزو نہ کرے پس اسے ضرور کرنی ہی ہو تو اسے چاہیے کہ یوں کہے اے اللہ پاک مجھے زندہ رکھ جب تک زندگی میرے حق میں بہتر ہے اور مجھے موت دے جب موت میرے حق میں بہتر ہو۔ (صحیح البخاری، صفحہ929،حدیث5671، مطبوعہ دار الحضارۃ)

مسلم شریف میں ہے:

”عن جابر ابن عبداللہ قال سمعت رسواللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبل موتہ بثلاثۃ ایام،یقول لایموتن احدکم الا و ھو یحسن الظن باللہ عزوجل‘‘

ترجمہ:جابر بن عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ان کی ظاہری حیات سے رخصت ہونے سے تین دن پہلے کہ تم میں سے کوئی نہ مرے مگر اس حالت میں کہ اللہ عزوجل سے نیک گمان رکھتا ہو۔(صحیح مسلم، صفحہ913،حدیث2877، مطبوعہ دار الحضارۃ)

فضائل دعا میں ہے سیدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:

”خلاصہ یہ کہ دُنْیَوی مَضَرَّتوں (نقصانات) سے بچنے کے لئے موت کی تمنّا ناجائز ہے اور دینی مَضَرَّت (دینی نقصان) کے خوف سے جائز کَمَا فِی الدُّرِّالْمُخْتَار وَالْخُلَاصَۃِ وَغَیرِہِمَا“ (ملخص اَز فضائلِ دعا، صفحہ 183)

رئیس اُلمتکلمین حضرت علامہ مولانا نقی علی خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:

”یہ دعا (یعنی مرنے کی دعا) بسببِ شوقِ وَصْلِِ الٰہی (اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں حاضری کے شوق) و اِشْتِیاقِ لِقائے صالحین (نیکوں سے ملاقات کی تمنّا کی وجہ سے) دُرست ہے اسی طرح جب دین میں فتنہ دیکھے تو اپنے مرنے کی دعا جائز ہے۔“(فضائلِ دعا، ص182)

بہارِ شریعت مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

’’کسی مصیبت پرموت کی آرزو نہ کرے کہ اس کی ممانعت آئی ہے اور ناچار کرنی ہی ہے تو یوں کہے، الہی مجھے زندہ رکھ جب تک زندگی میرے ليے خیر ہو اور موت دے جب موت میرے ليے بہتر ہو۔ اور مسلمان کو چاہيے کہ اللہ عزوجل سے نیک گمان رکھے، اس کی رحمت کا امیدوار رہے۔“(بہارِ شریعت، حصہ4،صفحہ812،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللہ و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ بابر عطاری مدنی اسلام آباد

14ربیع الثانی1445/ 30اکتوبر2023

اپنا تبصرہ بھیجیں