غیر نبی کے نام کے ساتھ درودو سلام

غیر نبی کے نام کے ساتھ درودو سلام

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ غیرانبیاء کے ساتھ درود وسلام لکھنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آج یہ بہت عام ہورہا ہے جیسے حضر ت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے نام مبارک کے ساتھ علیہ السلام لکھ دیا جاتا ہے ،یونہی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ سلام اللہ علیہا لکھا جاتا ہے۔ فقہ حنفی کی روشنی میں دلائل کے ساتھ ارشادفرمائیں کہ یوں غیر نبی کے ساتھ علیہ السلام لکھنا جائز ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

نام کے ساتھ درود یا سلام صرف انبیاءو ملائکہ علیہم الصلوۃ والسلام کے ساتھ خاص ہے،ان کےعلاوہ کسی اور کے ساتھ مستقل طورپر”صلی اللہ علی فلاں“ یا”علیہ السلام“ پڑھنا یا لکھنا جائز نہیں گناہ کا کام ہے۔لہذا یاعلی علیہ السلام،یا حسن علیہ السلام،یا حسین علیہ السلام ،یا فاطمہ سلام اللہ علیہا لکھنا شرعا درست نہیں ہے۔بعض علماء نے اس کو جائز لکھا ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ یہ جائز نہیں ہے۔البتہ بالتبع غیرنبی کے ساتھ درودوسلام لکھنا جائز ہے جیسے حضرت امام حسین عَلیَ نَبِیِّنَا وعلیہ السلام لکھنا درست ہے۔

کنزالعمال کی حدیث پاک ہے

’’عن ابن عباس قال لا ینبغی الصلاۃ علی أحد إلا النبیین‘‘

ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ نبی کے علاوہ کسی پر درود درست نہیں۔ ( کنزالعمال،کتاب الاذکار،باب فی الصلاۃ علیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،جلد2،صفحہ392،مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت)

النبراس میں ہے

’’ان ھذا فی عرف السلف من شعار الانبیاء فلزم التخصیص بھم کما لایجوز ان یقال فی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عزوجل وان کان عزیز جلیلا ‘‘

ترجمہ: اسلاف سے عرف یہی ہے (کہ درود و سلام انبیاء کے ساتھ خاص ہے) تو اس تخصیص کو انبیاء کے ساتھ رکھنا لازم ہے،جیسے نبی کے ساتھ عزوجل کہنا جائز نہیں اگرچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عزیز و جلیل ہیں۔ (النبراس شرح عقائد ، صفحہ7،مکتبہ حقانیہ،ملتان)

ردالمحتار میں ہے:

”اما السلام فنقل اللقانی فی شرح جوھرة التوحید عن الامام الجوینی انه فی معنی الصلوٰة فلا یستعمل فی الغائب ولا یفرد به غیر الانبیاء فلا یقال علی علیه السلام“

ترجمہ:بہرحال سلام تو اس بارے میں امام لقانی نے جوہرہ توحید کی شرح میں امام جوینی سے نقل کیا کہ یہ درود کے معنی میں ہے نہ اسے غائب کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ کسی پر انفرادی طور پر بولا جاسکتا ہے پس علی علیہ السلام نہ کہا جائے۔(رد المحتار علی الدر المختار ،جلد 10 صفحہ 518،مطبوعہ مکتبہ حقانیہ پشاور)

مشہور شافعی بُزُرگ حضرت امام مُحی الدِّین نووی عَلیْہ رَحْمَۃُاللّٰہِ الْقَوِی لکھتے ہیں :

’’لاَ یُصَلّ عَلٰی غَیْرِ الْأَنْبِیَائِ اِلَّا تَبْعاً لِاَنَّ الصَّلاَۃَ فِیْ لِسَانِ السَّلَفِ مَخْصُوْصَۃٌ بِالْاَنْبِیَاء صَلَواتُ اللّٰہ وَسَلَامُہٗ عَلَیْہِمْ کَمَا اَنَّ قَوْلَنَا ’’عَزَّوَجَلَّ‘‘ مَخْصُوْصٌ بِاللّٰہ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی فَکَمَا لَایُقَالُ مُحَمَّدٌ عَزَّوَجَلَّ وَاِنْ کَان عَزِیْزاً جَلِیْلًا لَا یُقَالُ اَبُوْ بَکْرٍ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاِنْ صَحَّ الْمَعْنٰی (اِلٰی اَنْ قَال) وَاتَّفَقُوْا عَلٰی اَنَّہٗ یَجُوْزُ اَنْ یُّجْعَلَ غَیْرَ اْلَانْبِیَائِ تَبْعَاً لَّھُمْ فِیْ ذٰلِکَ فَیُقَالُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیّٰتِہ وَاَتْبَاعِہٖ لِاَنَّ السَّلَفَ لَمْ یَمْنَعُوْا مِنْہُ وَقَدْ اُمِرْنَا بِہٖ فِی التَّشَہُّدِ وَغَیْرِہ قَالَ الشَّیْخُ اَبُوْمُحَمَّدِ الجُوَیْنِیْ مِنْ اَئِمَّۃِ اَصْحَابِنَا اَلسَّلَامُ فِیْ مَعْنَی الصَّلَاۃِ وَلَایُفْرَدُ بِہٖ غَیْرُ الْاَنْبِیَائِ لِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَرَنَ بَیْنَہُمَا وَلَا یُفْرَدُ بِہٖ غَائِبٌ وَلَا یُقَالُ قَالَ فُلَانٌ عَلَیْہِ السَّلاَمُ‘‘(شرح مسلم للنووی، باب الدعاء لمن اتی بصدقتہ،ج4،ص185، الجزء السابع،دار الفکر البیروت)

علامہ بدرُ الدِّین عینی رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں :

” وَقَالَ أبُوْ حَنِیْفَۃَ وَ اَصْحَابُہٗ وَمَالِکٌ وَالشَّافِعِیُّ وَالْاَکْثَرُوْنَ اِنَّہٗ لاَ یُصَلّٰی عَلٰی غَیْرِ اْلَانْبِیَاء عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلاَمُ اِسْتِقْلاَلاً، فَلاَ یُقَالُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِیْ بَکر اَوْ عَلٰی اٰلِ عُمَرَ اَوْ غَیْرِھِمَا و لٰکِن یُّصَلّٰی عَلَیْہِمْ تَبْعاً “(عمدۃ القاری ، کتاب الزکاۃ ، باب صلاۃ الامام ودعائہ لصاحب الصدقۃ وقولہ، ج6،ص556،دار الفکر بیروت)

ان دونوں عبارتوں کا خُلاصہ یہ ہے کہ اِمام ابُو حَنیفہ، اُن کے اَصحاب، امام مالک، امام شافعی اور اکثر عُلماء کا قول یہ ہے کہ غَیرِ نبی پر اِسْتِقْلالاً صلاۃ نہیں پڑھی جائے گی، اَلبتَّہ تَبْعاً پڑھی جاسکتی ہے ۔ یعنی یوں نہیں کہا جائے گا : اَللّٰھُمَّ صَلّ عَلٰی اَبِیْ بَکْرٍاَلبتَّہ یوں کہا جاسکتا ہے : اَللّٰھُمَّ صَلّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلی اَبِیْ بَکْرٍ ۔ اس کے جَواز اور عَدمِ جَواز کی دلیل سلف صالحین کا عمل ہے ، اور جَواز باِلتَّبع کی دلیل تَشَہُّد وغیرہ دیگر مَقامات بھی ہیں جہاں باِلتَّبع پڑھنے کا حکم ہے ۔ اِمامُ الْحَرَمَیْن حضرت امام جُوَیْنی رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ سلام بھی اس حکم میں صَلاۃ کے مَعْنی میں ہے ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

’’ويكره أن يصلى على غير النبي صلى اللہ عليه وآله وأصحابه وحده فيقول: اللهم صل على فلان، ولو جمع في الصلاة بين النبي صلى اللہ عليه وآله وأصحابه وبين غيره فيقول: اللهم صل على محمد وعلى آله وأصحابه جاز، كذا في فتاوى قاضي خان‘‘

ترجمہ:حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علاوہ تنہا کسی اور پر،آپ کی آل و اصحاب پر درود پڑھنا مکروہ ہے، جیسے کوئی کہے”اللهم صل على فلان “ہاں اگر حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ آپ کی آل واصحاب وغیرہ پر درود پڑھا جائے، مثلاً:’’اللهم صل على محمد وعلى آله وأصحابه ‘‘کہے،تو یہ جائز ہے۔ اسی طرح فتاوی قاضی خان میں ہے۔

(فتویٰ ھندیہ، جلد 5، صفحہ 315 مطبوعہ دار الفکر ،بیروت)

ردالمختار میں ہے :

”واختلف ھل تکرہ تحریما أو تنزیھا أو خلاف الأولی وصحح النووی فی الأذکار الثانی لکن فی خطبۃ شرح الأشباہ للبیری من صلی علی غیرھم أثم وکرہ وھو الصحیح‘‘

ترجمہ: اختلاف کیا گیا ہے کہ ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے یا تنزیہی یا خلاف اولیٰ ؟ امام نووی نے اذکار میں مکروہ تنزیہی کو صحیح کہا۔لیکن ”خطبۃ شرح الاشباہ للبیری“ میں ہے کہ غیر انبیاء و ملائکہ پر جو درود پڑھے ، وہ گنہگار ہے اور ایسا کرنا مکروہ ہے اور یہی صحیح ہے۔(ردالمختار کتاب الخنثی مسائل شتی جلد 10 صفحہ 483 مطبوعہ دارالکتب ،العلمیہ)

امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان جد الممتار میں فرماتے ہیں:

”ان افراد غیر الانبیاء بالسلام ابتداء واجب الاجتناب و صرح علی القاری فی شرح الفقه الاکبر ان قول علیه السلام لسیدنا علی کرم الله وجھه من شعار الروافض قلت واذ قد انعقد الاجماع علی منعه فلا معنی لارتکابه“

ترجمہ:انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ کسی کے ساتھ علیہ السلام جدا گانہ طور پر لگانے سے بچنا واجب ہے۔حضرت علامہ علی قاری علیہ الرحمة نے فقہ اکبر میں صراحت فرمائی کہ سیدنا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو علیہ السلام کہنا روافض کا شعار ہے میں کہتا ہوں جب اس کی ممانعت پر اجماع منعقد ہوگیا تو اس کے ارتکاب کا کوئی معنی نہیں۔(جد الممتار جلد 5 صفحہ نمبر 161, مطبوعہ مکتبة المدینہ کراچی)

مزید فرماتے ہیں :

” صَلوۃ وسَلام باِلاِسْتِقْلَال اَنبیاء و مَلائکہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السّلام کے سوا کسی کے لئے روانہیں ، ہاں بہ تَبْعیَّت جائز جیسے اَللّٰھُمَّ صَلّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنَامُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنا مُحَمَّدٍاور صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہ تَعالٰی عَنْہُم کے لئے رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کہا جائے ، اَولیائے وعُلماء کو رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْھِمْ یا قُدِّسَتْ اَسْرَارُھُمْ اور اگر رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْھُمْ۔ کہے جب بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔“(فتاوی رضویہ،ج23،ص390،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)

صَدْرُ الشَّریعہ بَدْرُ الطَّریقہ مُفْتی امجد علی اَعظمی عَلَیْہ رَحْمَۃُاللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :

’’کسی کے نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّلام کہنا ، یہ انبیاء و ملائکہ عَلَیْھِمُ السَّلام کے ساتھ خاص ہے ۔ مثلاً موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام ، جبریل عَلَیْہِ السَّلام۔ نبی اور فِرِشتہ کے سوا کسی دوسرے کے نام کے ساتھ یوں نہ کہا جائے۔“(بہار شریعت جلد 3، حصہ 16 ،صفحہ 465 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

فقیہ مِلَّت حضرت علاَّمہ مولانا مُفْتی جلالُ الدِّین اَمجدی عَلیْہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی لکھتے ہیں :

’’یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے جمہور علماء کا مَذہَب یہ کہ اِسْتِقْلالاً واِبتداء ً نہیں جائز اور اِتباعا جائز ہے یعنی امام حسین عَلَیْہِ السَّلام کہنا جائز نہیں ہے اور امام حسین عَلٰی نَبِینا وَعَلَیْہِ السَّلام جائز ہے ۔“(فتویٰ فیض الرسول جلد 1 صفحہ 267 مطبوعہ شبیر برادرز)

فتویٰ امجدیہ میں صدرُ الشَّریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ سے یہ سُوال ہوا کہ :

”یاحُسین عَلَیْہِ السَّلَام کہنا جائز ہے یا نہیں اور ایسا لکھنا بھی کیسا ہے اور پکارنا کیسا ہے ؟“

تو آپ نے جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا :

”یہ سلام جو نام کے ساتھ ذِکر کیا جاتا ہے یہ (یعنی یہ عَلَیْہِ السَّلَام کہنا، لکھنا) سلام ِتَحِیَّت (یعنی ملاقات کا سلام) نہیں جو باہم ملاقات کے وَقت کہا جاتا ہے یا کسی ذَرِیعہ سے کہلایا جاتا ہے بلکہ اس (یعنی عَلَیْہِ السَّلَام) سے مقصود صاحِبِ اِسم (یعنی جس کا نام ہے اُس) کی تعظیم ہے۔

عُرفِ اَہلِ اسلام نے اس سلام (یعنی عَلَیْہِ السَّلَام لکھنے بولنے) کو انبِیاء و ملائکہ کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔ مَثَلاً حضرتِ ابراھیم عَلَیْہِ السَّلَام حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام حضرتِ جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام حضرتِ میکائیل عَلَیْہِ السَّلَام۔ لہٰذا غیرِ نبی و مَلَک (یعنی نبی اور فرشتے کے علاوہ) کے نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّلَام نہیں کہنا چاہئے۔“(فتاویٰ امجدیہ جلد 4 صفحہ 243، 244، 245 مکتبہ رضویہ کراچی)

واللّٰہ تعالٰی اعلم و رسولہ اعلم باالصواب

صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ و آلہ و اصحابہ و بارک و سلم

کتبہ:غلام رسول قادری مدنی

1ربیع الثانی 1445ھ

16اکتوبر2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں