دف کے ساتھ نعت خوانی

دف کے ساتھ نعت خوانی

سوال کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ دف کے ساتھ نعت خوانی کرنا کیسا؟ کیونکہ اس کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور بجانے والے اس کو سنت کا نام دیتے ہیں۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

مذکورہ سوال کا جواب یہ ہے کہ خوشی کے موقع پر دف بجانا چار شرائط کے ساتھ جائز ہے اور وہ شرائط یہ ہیں:

(1) دف بغیر جھانج کے ہو۔

(2) دف کو قانون موسیقی پر نہ بجایا جائے۔

(3 ) دف بجانے والے مرد یا عزت دار عورتیں نہ ہوں ، بلکہ بچیاں یا کنیزیں ہوں۔

(4) دف کو جہاں بجایا جارہا ہے وہ محل فتنہ نہ ہو۔

مذکورہ شرائط فی زمانہ ناپید ہیں، بڑی عورتیں اور مرد دف بجاتے ہیں اور کئی جگہ جھانج والی دف یونہی موسیقی کے قواعدپر بجائی جاتی ہے ۔اس لیے دف کے ساتھ نعت خوانی شرعا ممنوع اور سوءِادب (بے ادبی ہے) اور ایسی نعت سننا بھی منع ہے۔پھر اگر یہ دف جھانج والی ہو تو پڑھنا سننا ناجائز ہے۔

نیز دف کو سنت کا نام دے کر جواز ثابت کرنا بھی سرا سر جہالت و بے باکی ہے کیونکہ احادیثِ طیبہ میں بھی چھوٹی بچیوں اور کنیزوں کا ذکر ہے ۔نیز یوں موسیقی کے قواعد پر مرد و عورت کا دف بجانے کو جائز بلکہ معاذ اللہ سنت سمجھنا میوزک کو حلال سمجھنے کے مترادف ہے جس کی سخت مذمت کی گئی ہے اور اس بارےمیں پیشین گوئی کی گئی تھی۔

بخاری شریف میں ہے:

”قالت الربیع بنت معوذ بن عفراء جاء النبي صلى الله عليه وستر فدخل حين بنى على فجلس على فراشي كمجلسك منى فجلعلت جويرات لنا يضربن بالدف“

ترجمہ: حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس اس وقت تشریف لائے جب مجھے دلہن بنایا گیا تھا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے بستر پر بیٹھے جس طرح کہ تمہارا میرے پاس بیٹھنا، پھر چھوٹی بچیاں دف بجانے لگیں۔(صحیح بخاری، ج2، ص773، قدیمی کتب خانه، کراچی)

”قال الفقهاء المراد بالدف ما لاجلاجل له“

ترجمہ: فقہاء فرماتے ہیں کہ جائز دف سے مراد وہ ہے جس میں جھانجھ نہ ہو۔(رد المحتار، ج 4، ص 68 ، دار الکتب العلمیة بیروت)

سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ شادی میں دف بجانا درست ہے یا نہیں؟ تو جواباً ارشاد فرمایا:

”دف کہ بے جلا جل یعنی بغیر جھانجھ کا ہو اور تال سم کی رعایت سے نہ بجایا جائے اور بجانے والے نہ مرد ہوں نہ ذی عزت عورتیں، بلکہ کنیزیں یا ایسی کم حیثیت عورتیں اور وہ غیر محل فتنہ میں بجائیں تو نہ صرف جائز بلکہ مستحب و مندوب ہے” للامر به في الحديث والقيود مذكورة في رد المحتار وغيره و شرحناها في فتاوانا “ ترجمہ: کیونکہ حدیث پاک میں اس کا امر ہے اور مذکورہ قیود رد الحتار وغیرہ میں مسطور ہیں اور ہم نے اپنے فتاوی میں ان کی وضاحت کر دی ہے۔“(فتاوی رضویہ ج 21، ص 643 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوی رضویہ میں مزید ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

”ہاں شرع مطہر نے شادی میں بغرض اعلان نکاح صرف دف کی اجازت دی ہے جبکہ مقصود شرع سے تجاوز کر کے لہو مکروہ تحصیل لذت شیطانی کی حد تک نہ پہنچے، لہذا علماء شرط لگاتے ہیں کہ قواعدِ موسیقی پر نہ بجایا جائے ، تال سم کی رعایت نہ ہو ، نہ اس میں جھانج ہوں کہ وہ خواہی نخواہی مطرب وناجائز ہیں، پھر اس کا بجانا بھی مردوں کو ہر طرح مکروہ ہے ، نہ شرف والی بیبیوں کے مناسب بلکہ نابالغہ چھوٹی چھوٹی بچیاں یا لونڈیاں باندیاں بجائیں ، اور اگر اس کے ساتھ سیدھے سادھے اشعار یا سہرے سہاگ ہوں جن میں اصلا نہ فحش ہو نہ کسی بے حیائی کا ذکر، نہ فسق و فجور کی باتیں، نہ مجمع زنان یا فاسقان میں عشقیات کے چرچے، نہ نامحرم مردوں کو نغمہ عورات کی آواز پہنچے۔ غرض ہر طرح منکرات شرعیہ ومظان فتنہ سے پاک ہوں ، تو اس میں بھی مضائقہ نہیں ۔۔ اصل حکم میں تو اسی قدر کی رخصت ہے مگر حال زمانہ کے مناسب یہ ہے کہ مطلق بندش کی جائے کہ جہال حال خصوصاً زنانِ زماں سے کسی طرح کی امید نہیں کہ انہیں جو حد باندھ کر اجازت دی جائے اس کی پابند رہیں اور حد مکروہ و ممنوع تک تجاوز نہ کریں، لہذا سرے سے فتنہ کا دروازہ ہی بند کر دیا جائے ، نہ انگلی ٹیکنے کی جگہ پائیں گی نہ آگے پاؤں پھیلائیں گی۔“(فتاوی رضویه ج23، ص281، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

بہار شریعت میں ہے:

” عید کے دن اور شادیوں میں دف بجانا جائز ہے جبکہ سادے دف ہوں ، اس میں جھانج نہ ہوں اور قواعد موسیقی پر نہ بجائے جائیں یعنی محض ڈھپ ڈھپ کی بے سری آواز سے نکاح کا اعلان مقصود ہو۔“ (بہار شریعت، ج3، حصہ16 ، ص510 مكتبة المدينه، کراچی)

نعت شریف پڑھنے کے دوران دف بجانا ممنوع اور بے ادبی ہے جیسا کہ فتاوی مصطفویہ میں ہے:

”دف بجا کر قصائد ، نعت اور حالت قیام میلاد شریف میں صلاۃ وسلام پڑھنا جائز ہے یا ناجائز ، دف مع جھانج ہو تو کیا حکم ہے اور بلا جھانج ہو تو کیا حکم ہے تو جوابا ارشاد فرمایا “ہرگز نہ چاہیے کہ سخت سوءِ ادب ہے اور اگر جھانج بھی ہوں یا اس طرح بجایا جائے کہ گت پیدا ہو فن کے قواعد پر جب تو حرام اشد حرام ہے، حرام در حرام ہے۔“(فتاوی مصطفویه، ص448، شبیر برادرز، لاہور)

بخاری شریف میں ہے

”ليكونن من امتى اقوام يستحلون الحر والحرير والخمر والمعازف“

ترجمہ ضرور میری امت میں وہ لوگ ہونے والے ہیں جو حلال ٹھہرائیں گے عورتوں کی شرمگاہ (یعنی زنا) اور ریشمی کپڑوں اور شراب اور باجوں کو۔ (صحیح بخاری، ج2، ص837، قدیمی کتب خانه، کراچی)

واللہ و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

بابر عطاری مدنی اسلام آباد

15ربیع الاول1445/ 3اکتوبر2023

اپنا تبصرہ بھیجیں