رضاعت کی مدت اور امام ابوحنیفہ پر اعتراض

رضاعت کی مدت اور امام ابوحنیفہ پر اعتراض

سوال: رضاعت کی مدت فقہ حنفی میں کتنی ہے،اس حوالے سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر غیر مقلد اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن میں دوسا ل مدت مذکور ہے لیکن امام ابوحنیفہ نے اڑھائی سال لکھی ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

مدت رضاعت فقہ حنفی میں دو سال ہے۔امام ابوحنیفہ پر جو اس مسئلہ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ا نہوں نے دو سال کی جگہ اڑھائی سال فرمایا ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے جو بھی مسئلہ ارشاد فرمایا کسی نہ کسی دلیل کی بنیاد پر فرمایا ۔آپ نے جو دودھ پلانے کی عمر اڑھائی سال فرمائی وہ قرآن پاک کی اس آیت کی روشنی میں فرمائی

{ وَحَمْلُہُ وَفِصَالُہُ ثَلَاثُوْنَ شَہْرًا}

ترجمہ کنز الایمان:اور اسے اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینے میں ہے۔(سورۃ الاحقاف،سورت46،صفحہ15)

اس میں حمل اور دودھ چھڑانے دونوں کی الگ الگ مدت بیان کی گئی ہے۔ جس آیت سے دو سال تک دودھ پلانے کاذکر ہے ۔اس کا تعلق اجرت رضاعت کے ساتھ ہے کہ دوسال تک باپ پر اجرت پر دودھ پلانا لازم ہے ،اس کے بعد دودھ پلانا لازم نہیں۔فتوی دودھ کے مسئلہ میں صاحبین کے قول پر ہے کہ دو سال سے زائد دودھ پلانا جائز نہیں البتہ اگر اڑھائی سال کے اندر کسی نے پی لیا تو حرمت رضاعت ثابت ہوجائے گی۔

اعتراض کرنے والوں کے لیے ایک جواب یہ بھی ہے کہ ان کے اکابرین کے نزدیک تو اگر داڑھی والا آدمی بھی دودھ پی لیں تو رضاعت جیسے احکام ثابت ہو جائیں گے تو یہ کیسے متصور ہوسکتا ہے کہ اڑھائی سال میں تو رضاعت ثابت نہ ہو اور رضاعت کبیر ثابت ہو جائے جس کا انکار باقاعدہ احادیث مبارکہ میں موجود ہے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے

’’وأبو حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی استدل بقولہ تعالی{وحملہ وفصالہ ثلاثون شہرا}وظاہر ہذہ الإضافۃ یقتضی أن یکون جمیع المذکور مدۃ لکل واحدۃ منہما إلا أن الدلیل قد قام علی أن مدۃ الحبل لا تکون أکثر من سنتین فبقی مدۃ الفصال علی ظاہرہ، وقال اللہ تعالی{فإن أرادا فصالا عن تراض منہما وتشاور}الآیۃ فاعتبر التراضی والتشاور فی الفصلین بعد الحولین فذلک دلیل علی جواز الإرضاع بعد الحولین‘‘

ترجمہ:امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت سے استدلال فرمایا:اور اسے اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینے میں ہے ۔ یہ اضافت حمل اور رضاعت دونوں کی الگ الگ مدت کو بیان کرتی ہے۔البتہ حمل کے متعلق حدیث پاک میں دوسال کی مدت بیان فرمادی گئی تومذکورہ آیت میں بیان کردہ صورت مدت رضاعت کے لئے خاص ہوگئی۔اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ فرمایا : پھر اگر ماں باپ دونوں آپس کی رضا اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں ۔۔اس آیت میں دوسال کے بعد باہم مشورے سے دودھ چھڑانے کے متعلق فرمایا گیا ،جس سے دو سال کے بعد دودھ پلانے کا جواز ثابت ہوا۔ (المبسوط،کتاب النکاح ،باب الرضاع،جلد5،صفحہ136،دار المعرفۃ ، بیروت)

الاختیار میں ہے

’’والآیۃ الأولی محمولۃ علی مدۃ الاستحقاق حتی لا یکون للأم المبتوتۃ المطالبۃ بأجرۃ الرضاع بعد الحولین، فعملنا بالآیۃ الأولی فی نفی الأجرۃ بعد الحولین، وبالثانیۃ فی الحرمۃ إلی ثلاثین شہرا أخذا بالاحتیاط فیہما‘‘

ترجمہ:پہلی آیت مدت استحقاق پر محمول ہے کہ دوسال کے بعد طلاق بائنہ والی کے لئے پیسے لے کر دودھ پلانے کا مطالبہ درست نہیں۔پہلی آیت کے متعلق ہمارا عمل یہ ہے کہ دو سال کے بعد دودھ اجرت پر پلاناباپ پر لازم نہیں اور تیس ماہ دودھ پلانے کی مدت میں حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی ۔اس میں احتیاط ہے۔ (الاختیار لتعلیل المختار،کتاب الرضاع،جلد3،صفحہ118،مطبعۃ الحلبی،القاہرۃ)

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے

’’(و قالا سنتان) لان ادنی مدۃ الحمل ستۃ اشہر فبقی للفصال حولان قال فی الفتح: وھو الاصح ‘‘

ترجمہ: صاحبین فرماتے ہیں کہ مدت رضاعت صرف دو سال ہے کیونکہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے اور مدت رضاعت کے لیے باقی دو سال بچتے ہیں۔ فتح القدیر میں ہے کہ یہی دو سال والا قول زیادہ صحیح ہے۔(اللباب فی شرح الکتاب ،کتاب الرضاع، جلد3، صفحہ31 ،مطبوعہ بیروت)

ردالمختار میں ہے

’’(حَوْلَانِ وَنِصْفٌ عِنْدَهُ وَحَوْلَانِ ) فَقَطْ ( عِنْدَهُمَا وَهُوَ الْأَصَحُّ ) فَتْحٌ وَبِهِ يُفْتَى كَمَا فِي تَصْحِيحِ الْقُدُورِيِّ‘‘

ترجمہ: مدت رضاعت امام صاحب کے نزدیک اڑھائی سال اور صاحبین کے نزدیک صرف دو سال ہے اور یہی دو سال والا قول زیادہ صحیح ہے، یہ بات فتح القدیر میں ہے، اور اسی پر فتویٰ ہے جیسا کہ علامہ قاسم بن قطلوبغا کی کتاب ”تصحیح القدوری“ میں ہے۔(الدر المختار مع رد المختار باب الرضاع جلد4 صفحہ 387 مطبوعہ بیروت)

بہار شریعت میں ہے:

’’بچہ کو دو برس تک دودھ پلایا جائے، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ۔ دودھ پینے والا لڑکا ہو یا لڑکی اور یہ جو بعض عوام میں مشہور ہے کہ لڑکی کو دو برس تک اور لڑکے کو ڈھائی برس تک پلا سکتے ہیں یہ صحیح نہیں ۔ یہ حکم دودھ پلانے کا ہے اور نکاح حرام ہونے کے لیے ڈھائی برس کا زمانہ ہے یعنی دو ۲ برس کے بعد اگرچہ دودھ پلانا حرام ہے مگر ڈھائی برس کے اندر اگر دودھ پلا دے گی، حرمت نکاح ثابت ہو جائے گی اور اس کے بعد اگر پیا، تو حرمت نکاح نہیں اگرچہ پلانا جائز نہیں۔‘‘(بہار شریعت جلد 2 حصہ 9 صفحہ 37 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

کنز الدقائق از وحید الزماں وہابی مولوی وحید لکھتا ہے

”ویجوز ا رضا ع الکبیر ولوکان ذالحیۃ لتجویز النظر “

ترجمہ: نظر کے جائز کے ہونے کے لیے بڑے آدمی اگرچہ وہ داڑھی والا ہو کو دودھ پلانا جائز ہے۔ ( کنز الحقائق از وحید الزمان: صفحہ 67 ، نزل الابرار از وحید الزمان: صفحہ77 مطبوعہ کراچی)

عرف الجادی میں وہابی مولوی نواب میر نورا لحسن خان لکھتا ہے

’’ارضاع کبیر بنا ء بر تجویز نظر جائز است “

ترجمہ: نظر کے جائز کے ہونے کے لیے بڑے آدمی کو دودھ پلانا جائز ہے۔ (عرف الجادی از نواب میر نور الحسن خان: صفحہ 130 مطبوعہ کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس

14 ربیع الآخر 1445ھ30اکتوبر 2023ء

نظر ثانی و ترمیم:

مفتی محمد انس رضا قادری

اپنا تبصرہ بھیجیں