عورت رضاعی بہن ہونے کا دعوی کرے تو کیا حکم ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر ایک عورت دعوی کرے کہ فلاں  میاں بیوی دونوں  نے ایک ہی عورت کا دودھ پیا ہے یعنی یہ دونوں رضاعی بہن بھائی ہیں تو اس عورت کے دعوی پر حرمت ثابت ہوجائے گی؟

اَلْجَوابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

رضاعت کے ثبوت کے لیے دو عادل مرد ، یاایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی ضروری ہے، صرف ایک مرد ، یادوعورتوں یاکسی ایک عورت کا قول رضاعت کے ثبوت کے لیے کافی نہیں ہے۔ مگر بہتر یہی ہے کہ اس عورت سے جدائی اختیار کر لے۔۔

لہذاصورتِِ مسئولہ میں صرف عورت کا کہنا معتبر نہ ہو گا۔ البتہ اگر میاں بیوی دونوں یا صرف شوہر اس رضاعت کی تصدیق کرتاہوتو اس صورت میں جدائی  لازم ہے۔

العنایہ شرح ہدایہ میں ہے :

” (ولاتقبل في الرضاع شهادة النساء منفردات وإنما تثبت بشهادة رجلين أو رجل وامرأتين) وقال مالك رحمه الله: تثبت بشهادة امرأة واحدة إذا كانت موصوفةً بالعدالة؛ لأن الحرمة حق من حقوق الشرع؛ ،

کہ اکیلی عورت کی گواہی نہ قبول کی جائیگی کہ گواہی دو مرد یا ایک مرد دو عورتیں عادل ہوں تو ثابت ہو گی۔۔ اسلیے کہ حرمت یہ حق شرع ہے

“. (5/158 العنایہ ،دارالفکر بیروت)

المبسوط للسرخسی میں ہے :“(قال:) ولايجوز شهادة امرأة واحدة على الرضاع أجنبيةً كانت أو أم أحد الزوجين، ولايفرق بينهما بقولها، ويسعه المقام معها حتى يشهد على ذلك رجلان أو رجل وامرأتان عدول، وهذا عندنا”

رضاعت پر اکیلی عورت کی شہادت جائز نہ ہو گی وہ اجنبیہ ہو یا زوجین میں سے کسی کی ماں ہو اور اس ایک کے قول کی وجہ سے دونوں میں تفریق نہ کی جائیگی  یہانتک کہ دو عادل مرد ایک مرد یا دو عورتیں نہ گواہی دے دیں۔

. (3/681 المبسوط دارالمعرفہ بیروت )

بہار شریعت میں جوہرہ نیرہ کے حوالے سے ہے کہ:رضاع کے ثبوت کے لیے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں  عادل گواہ ہوں  اگرچہ وہ عورت خود دودھ پلانے والی ہو، فقط عورتوں  کی  شہادت سے ثبوت نہ ہوگا مگر بہتر یہ ہے کہ عورتوں  کے کہنے سے بھی جدائی کرلے۔) (جوہرہ)

اور عالمگیری کے حوالے سے ص ۴٢ پر

کسی عورت سے نکاح کیا اور ایک عورت نے آکر کہا، میں  نے تم دونوں  کو دودھ پلایا ہے اگر شوہر یا دونوں  اس کے کہنے کو سچ سمجھتے ہوں  تو نکاح فاسد ہے اور وطی نہ کی  ہو تو مہر کچھ نہیں  اور اگر دونوں  اس کی  بات جھوٹی سمجھتے ہوں  تو بہتر جدائی ہے اگر وہ عورت عادلہ ہے، پھر اگر وطی نہ ہوئی ہو تو مرد کو افضل یہ ہے کہ نصف مہر دے دی جائے۔) 

ج ٢ ح ٧ ص ۴١۔۴٢ ایپ۔

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مجیب ۔؛ مولانا فرمان رضا مدنی

نظر ثانی۔: ابو احمد مولانا مفتی انس قادری مدنی