نماز کا وقت کم ہو تو حالت جنابت میں تیمم کرکے نماز پڑھنا؟

نماز کا وقت کم ہو تو حالت جنابت میں تیمم کرکے نماز پڑھنا؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ غسل کرنے میں نماز کا وقت ختم ہو جانے کا خوف ہو تو کیا تیمم کر کے نماز پڑھ سکتے ہیں؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

صورت مستفسرہ کے مطابق اگر وقت تنگ ہو اور غسل کرنے میں نماز کے فوت ہونے کا خوف ہو تو مختار قول کے مطابق تیمم کرکے نماز پڑھ سکتا ہے البتہ پھر غسل کرکے اس نماز کا اعادہ لازم ہے ۔ یہ تیمم کی اجازت تب ہے جبکہ کلی کرنے،ناک میں پانی چڑھانے اور تمام بدن پر پانی بہا کر بھی فرض نہیں پڑھ سکتا لیکن یہ سب تو کرسکتا ہے مگر صابن وغیرہ کا استعمال کرنے کا وقت نہیں تو اس صورت میں تیمم کرکے نماز پڑھنے سے گناہگار ہوگا اور اب یہ فقط فرائض غسل ادا کرکے نماز ادا کرے۔

درمختار مع ردالمختار میں ہے

”قال الحلبی فالاحوط ان یتیمم ویصلی ثم یعید(قوله: قال الحلبي): اي البرهان الحلبي في شرحه علي المنية، وذكر مثله العلامة ابن امير الحاج الحلبي في الحلية شرح المنية، حيث ذكر فروعاً عن المشايخ، ثم قال: ماحاصله: ولعل هذا من هؤلاء المشايخ اختيار لقول زفر؛ لقوة دليله، وهو ان التيمم انما شرع للحاجة الی اداء الصلاة في الوقت فيتيمم عند خوف فوته … فينبغي العمل به احتياطاً، ولاسيما كلام ابن الهمام يميل الی ترجيح قول زفر كماعلمته، بل قدعلمت من كلام القنية انه رواية عن مشايخنا الثلاثة ونظیر ھذا مسالہ الضیف الذی خاف ریبہ فانھم قالو یصلی ثم یعید“

الحلبی نے فرمایا زیادہ احتیاط یہ ہے کہ تیمم کرے اور نماز پڑھے پھر نماز کا اعادہ کرے۔ابراہیم الحلبی نے المنیہ پر اپنی شرح میں فرمایا اور اس کی مثل علامہ ابن امیر حاج الحلبی نے الحلبہ شرح المنیہ میں ذکر کیا ہے جہاں انہوں نے مشائخ سے فروع ذکر کی ہے پھر فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ شاید ان مشائخ کاامام زفر کے قول کو اختیار کرنا ہے کیونکہ ان کی دلیل قوی یہ ہے کہ تیمم وقت میں نماز کو ادا کرنے کی حاجت کے لیے مشروع کیا گیا ہے پس وقت کے فوت ہونے کے خوف سے تیمم کرے۔پس مناسب ہے کہ اس پر عمل کرنا چاہیے خصوصا ابن الھمام کا کلام امام زفر کے قول کی ترجیح کی طرف مائل ہے جیسا کہ تو جان لیا ہے بلکہ القنیہ کے کلام سے بھی تو نے جان لیا کہ یہ ہمارے آئمہ ثلاثہ کی ایک روایت ہے اور اس کی مثل اس مہمان کا مسئلہ ہے جسے خوف ہو تو علماء نے فرمایا وہ نماز پڑھے پھر اعادہ کرے۔ (درمختار مع ردالمختار ،باب التیمم، جلد1 ،صفحہ 434،دار المعرفۃ ،بیروت)

فتویٰ رضویہ میں ہے:

”جبکہ نماز کا وقت تنگ ہو نجاست دھو کر تیمم کرکے نماز پڑھ لے پھر نہا کر بعد بلند آفتاب اس کا اعادہ کرے۔“(فتویٰ رضویہ،باب التیمم،جلد03،صفحہ 308،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

فتویٰ رضویہ میں اسی طرح کا سوال مذکور ہے کہ زید صبح کو ایسے تنگ وقت میں سو کر اٹھا کہ صرف وضو کرکے نماز فجر ادا کرسکتا ہے مگر اس کو غسل کی حاجت ہے پس اس کو غسل کرکے قضاء نماز فجر ادا کرنا چاہیے یا وقت ختم ہونے کے خیال سے غسل کا تیمم کرکے اور وضو کرکے نماز فجر ادا کرے اور بعدہ غسل کرکے نماز فجر کا اعادہ کرے ؟

جوابا آپ نے فرمایا:

”تیمم کرکے نماز وقت میں پڑھ لے بعد کو نہا کر اعادہ کرے بہ یفتی۔(اسی پر فتویٰ دیا جاتا ہے)“(فتویٰ رضویہ،باب التیمم،جلد03،صفحہ 310،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

بہارشریعت میں ہے:

” وقت اتنا تنگ ہو گیا کہ وُضو یا غُسل کریگا تو نماز قضا ہو جائے گی تو چاہیے کہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے پھر وُضو یا غُسل کر کے اعادہ کرنا لازم ہے۔“ (بہارشریعت،جلد01،حصہ02،صفحہ 352،مکتبۃ المدینہ)

فتویٰ فیض الرسول میں ہے:

”جبکہ نماز کا وقت اتنا تنگ ہوگیا کہ جلدی سے غسل کرکے نماز نہیں پڑھ سکتا تو اگر جسم پر کئی نجاست لگی ہو تو اسے دھو کر غسل کا تیمم کرے اور وضو بنا کر نماز پڑھ لے پھر غسل کرے اور سورج بلند ہونے کے بعد نماز دوبار پڑھے ایسا ہی فتویٰ رضویہ میں ہے۔مگر اس صورت میں ہے کہ جب کہ کلی کرنے،ناک میں پانی چڑھانے ،اور سارے بدن پر پانی بہانے کے بعد دو رکعت فرض پڑھنے بھر کا بھی وقت نہ ہو لیکن اگر اتنا وقت تو ہے لیکن صابن وغیرہ لگا کر اہتمام سے نہانے بھر کا وقت نہیں ہے تو فرض ہے کہ صابن کے بغیر غسل کرکے نماز پڑھے اس صورت میں اگر تیمم کرے گا تو گناہگار ہوگا۔“(فتاویٰ فیض الرسول،جلد 01 ،صفحہ 184،اکبر بک سیلرز)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس

16 ربیع الآخر 1445ھ01نومبر 2023ء

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ مسواک وضو کی سنت قبلیہ ہے یا وضو میں کلی کرتے وقت سنت ہے ؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب: بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

مسواک وضو کی سنت قبلیہ ہے۔لہٰذایہ وضو شروع کرنے سے پہلے ہی کی جائے، اس کے بعد وضو شروع کیا جائے ۔اگر وضو سے پہلے نہ کی تھی تو نماز سے پہلے کر لے۔

فتاوی رضویہ میں ہے سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

”بالجملہ : بحکم متون و احادیث اظہر ، وہی مختار بدائع و زیلعی و حلیہ ہے کہ مسواک وضو کی سنت قبلیہ ہے ، ہاں سنت مؤکدہ اسی وقت ہے جبکہ منہ میں تغیر ہو ، اس تحقیق پر جبکہ مسواک وضو کی سنت ہے مگر وضو میں نہیں بلکہ اس سے پہلے ہے تو جو پانی کہ مسواک میں صرف ہو گا اس حساب سے خارج ہے۔ سنت یہ ہے کہ مسواک کرنے سے پہلے دھولی جائے اور فراغ کے بعد دھو کر رکھی جائے اور کم از کم اوپر کے دانتوں اور نیچے کے دانتوں میں تین تین بار تین پانیوں سے کی جائے۔ “(فتاوی رضویہ، ج1، ص838، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

بہار شریعت میں ہے:

”مِسواک نماز کے لیے سنت نہیں بلکہ وُضو کے لیے ،تو جو ایک وُضو سے چند نمازیں پڑھے، اس سے ہر نماز کے لیے مِسواک کا مطالبہ نہیں، جب تک تَغَیّرِ رائِحہ نہ ہو گیاہو، ورنہ اس کے دفع کے لیے مستقل سنت ہے البتہ اگر وُضو میں مِسواک نہ کی تھی تو اب نماز کے وقت کر لے۔“(بہار شریعت،ج1، حصہ2، ص298، مسئلہ نمبر42 مکتبۃ المدینہ دعوت اسلامی)

مسواک شریف کے فضائل میں ہے:

”مسواک وضو کی سنت قبلیہ ہے ( یعنی مسواک وضو سے پہلے کی سنت ہے وضو کے اندر کی سنت نہیں لہذا وضو شروع کرنے سے قبل مسواک کیجیئے پھر تین تین بار دونوں ہاتھ دھوئیں اور طریقے کے مطابق وضو مکمل کیجئے البتہ سُنتِ مؤکدہ اُسی وقت ہے جبکہ منہ میں بدبو ہو۔“ (مسواک شریف کے فضائل، صفحہ11، مطبوعہ رسالہ مکتبہ المدینہ دعوت اسلامی)

واللہ و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

بابر عطاری مدنی اسلام آباد

15ربیع الثانی1445/ 31اکتوبر2023

اپنا تبصرہ بھیجیں