کسی کے پیسے کھالینا اور بغیر بتائے لوٹانا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں  کہ زید نے اپنے دوست کے کچھ پیسے کھا لیے، جس کا اس دوست کو علم نہیں۔ زید کو ندامت ہوئی تو اس نے سچے دل سے اپنے اس فعل سے توبہ کر لی تو کیا اس کی توبہ قبول ہوگی؟ نیز کیا وہ پیسے لوٹانے پڑیں گے یا توبہ سے وہ بھی معاف ہوگئے؟ نیز اگر لوٹانے پڑیں گے تو کس طرح یہ اپنے دوست کو واپس کرے کیونکہ زید اپنے دوست کو یہ نہیں کہہ سکتا ہے اس نے پیسے کھا ڈالے ہیں؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب  اللھم  ھدایۃ الحق وا لصواب

بیان کی گئی صورت میں، زید کا صرف اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ توبہ کے ساتھ ساتھ اس گناہ کی تلافی بھی کرنی ہوگی۔ تلافی کی صورت یہ ہے کہ جتنے پیسے اس دوست کے نا حق کھائیں ہیں اتنے اس کو واپس لوٹا دے۔ البتہ زید کے لیے اپنے دوست کو وہ پیسے لوٹاتے وقت یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ وہ پیسے ہیں جو میں نے ناجائز طریقے سے لیے تھے، بلکہ تحفہ یا عطیہ وغیرہ کسی بھی نام پر اپنے دوست کو دے سکتا ہے بس یہ اپنے اس دوست کی ملک کر کے ان پیسوں پر اس کا قبضہ دلوا دے۔

علامہ علاؤ الدین محمد بن علی  الحصکفی ﷫ (المتوفی: 1088ھ/1677ء) لکھتے ہیں:

”ويبرأ بردها ولو بغير علم المالك في البزازية غصب دراهم إنسان من كيسه ثم ردها فيه بلا عمله برئ، وكذا لو سلمه إليه بجهة أخرى كهبة أو إيداع“

ترجمہ: اور (جس نے کسی کی کوئی چیز غصب کر لی ہو تو) اسے لوٹا دینے سے وہ برئ الذمہ ہو جائے گا، اگرچہ  مالک کے علم میں لائے بغیر  لوٹا دے۔ البزازیة  میں ہے کہ  ایک شخص نے کسی کے کچھ درہم اس کے پرس سے غصب کر لیے  اور پھر اسے بتائے بغیر لوٹا دیے تو وہ برئ الذمہ ہو گیا۔ اور اسی طرح اگر اس مال کو کسی اور صورت پر  واپس (اس مالک) کی سپرد کر دیا جیسے تحفۃً یا امانۃً۔(الدر المختار شرح تنویر الابصار، کتاب الغصب، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 613، مطبوعه: دار الکتب العلمیة)

اس کے تحت خاتم المحققین  علامہ ابن عابدين سید محمد امين بن عمر شامی حنفی ﷫   (المتوفى: 1252ھ/1836ء) جامع الفصولین سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”وضع المغصوب بين يدي مالكه برئ، وإن لم يوجد حقيقة القبض وكذا المودع، بخلاف ما لو أتلف غصبا أو وديعة فجاء بالقيمة لا يبرأ ما لم يوجد حقيقة القبض “

ترجمہ: مغصوبہ چیز کو اس کے مالک کے سامنے رکھ دیا تو غاصب برئ الذمہ ہو جائے گا اگرچہ حقیقی قبضہ نہ پایا گیا ہو، اسی طرح امانت کا حکم ہے۔ برخلاف اس صورت کے کہ اگر کسی نے مغصوبہ چیز کو تلف کر دیا،  یا ودیعت کو تلف کر دیا،  پس یہ اس (تلف شدہ چیز)  کی قیمت لے آیا، تو جب تک حقیقی قبضہ نہیں پایا جائے گا، برئ  الذمہ نہیں ہوگا۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الغصب ، جلد نمبر 6، صفحه نمبر 182، مطبوعه: دار الفکر)

شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان﷫ (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:

”جس کا مال دبایا ہے، فرض ہے کہ اُتنا  مال اسے دے،وہ نہ رہا ہواس کے وارث کو دے، وہ نہ ہوں فقیرکودے،بے اس کےسبکدوش نہیں ہوسکتا۔ “(فتاوی رضویة، جلد نمبر 24، صفحه نمبر 379، مطبوعه: رضا فاؤنڈیشن لاہور)

و  اللہ اعلم  عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبــــــــــــــــــــــــــــہ

عبده المذنب احمدرضا عطاری حنفی عفا عنه الباري

03 شوال المکرم   1444ھ /        24 اپریل 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں