سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ والدین فاسق ہو تو کیا ان سے قطع تعلقی کرسکتے ہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔
قرآن و حدیث میں کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے اگرچہ وہ ظالم یا مشرک ہی کیوں نہ ہوں۔ لہذا اگر والدین فاسق ہوں تو ان سے قطعِ تعلقی کرنا جائز نہیں ہے۔
یہاں پر والدین سے حسنِ سلوک کرنے پر 05 قرآنی آیات اور پ05 احادیثِ مبارکہ پیش کی جاتی ہیں۔
اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: { وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(۱۴)وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌۙ-فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا٘ }۔
ترجمہ: اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی، اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ شکر کر میرا اور اپنے ماں باپ کا، میری ہی طرف تجھے آنا ہے اور اگر وہ دونوں تجھ سے کوشش کریں کہ میرا شریک ٹھہرا ایسے کو جس کا تجھے علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مان اور دنیا میں بھلائی کے ساتھ ان کا ساتھ دے۔
(01) عَنْ أَسْمَاءَ بْنَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ : قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ، إِذْ عَاهَدُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُدَّتِهِمْ مَعَ أَبِيهَا، فَاسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ ، أَفَأَصِلُهَا ؟ قَالَ : ” نَعَمْ صِلِيهَا “.
ترجمہ: ” حضرت اسماء بنتِ ابی بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے، کہتی ہیں: جس زمانہ میں قریش نے حضور ( صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) سے معاہدہ کیا تھا میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یارسول ﷲ! ( صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں؟ ارشاد فرمایا: ’’اس کے ساتھ سلوک کرو ( یعنی کافرہ ماں کے ساتھ بھی سلوک کیا جائے گا )۔ “
( صحیح البخاري، کتاب الجزیۃ والموادعۃ، جلد 04، صفحہ 103، مطبوعہ دار طوق النجاۃ بیروت )۔
(02) عن ابن عباس، قال: ” ما من مسلم له أبوان، فيصبح وهو محسن إليهما إلا فتح له بابان من الجنة، ولا يمسي وهو محسن إليهما إلا فتح له بابان من الجنة، ولا سخط عليه واحد منهما فرضي الله عز وجل عنه حتى يرضى ” قال: قلت: وإن كان ظالما؟ قال: ” وإن كان ظالما “، قال: ” وإن كان ظالما “۔
ترجمہ: ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے والدین کا فرمانبردار ہے، اس کے لیے صبح ہی کو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک ہی ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے اور جس نے اس حال میں صبح کی کہ والدین کے متعلق خدا کی نافرمانی کرتا ہے، اس کے لیے صبح ہی کو جہنم کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے۔ ایک شخص نے کہا، اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں؟ فرمایا:’’ اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں۔
( شعب الایمان، باب في برالوالدین، فصل في حفظ حق الوالدین بعد موتھما، جلد 10، صفحہ 306، مطبوعہ مکتبۃ الرشد )۔
میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں: ” اطاعت والدین جائز باتوں میں فرض ہے اگر چہ وہ خود مرتکب کبیرہ ( یعنی کبیرہ گناہ کرنے والے ) ہوں، ان کے کبیرہ کا وبال ان پر ہے مگر اس کے سبب یہ امور جائزہ میں ان کی اطاعت سے باہر نہیں ہوسکتا، ہاں اگر وہ کسی ناجائز بات کا حکم کریں تو اس میں ان کی اطاعت جائز نہیں۔ ” لا طاعۃ لاحد فی معصیۃ ﷲ تعالٰی “ یعنی اللہ تعالٰی کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت (فرمانبرداری) نہیں۔
( فتاویٰ رضویہ جلد 21، صفحہ 157، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور ).
واللہ اعلم عزوجل و رسولہ الکریم اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ
سگِ عطار محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ