محرم الحرام میں اہل بیت کی محبت میں نوحے سننا

سوال :محرم الحرام میں نوحے پڑھنے سننے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا محبت اہل بیت میں نوحے پڑھنے اورسننے کا سننا ثواب ہوگا؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

مرثیہ ونوحہ سے مراد یہ ہے کہ مردے کے اوصاف بیان کر کے گریہ کرنا رونا چلانا سینہ کوبی کرنا ۔پھر مروجہ نوحہ میں موسیقی و سینہ کوبی و من گھڑت واقعات جزع و فزع اور بھی کئی خرابیاں موجود ہوتی ہیں ۔شرعا نوحہ پڑھنا و سننا ناجائز و حرام ہے احادیث میں ا س کی سخت ممانعت موجود ہے۔ ان کا ناجائز ہونا روافض کی کتب سے بھی ثابت ہے۔ جب نوحے پڑھناو سننا شرعا حرام ہے تو یہ اہل بیت کی محبت نہیں بلکہ جو اہل بیت کی محبت قرار دے کر اسے سننے تو یہ اور زیادہ قابل گرفت ہے کہ ایک حرام فعل کو نہ صرف جائز بلکہ ثواب سمجھ رہا ہے۔ اہل بیت سے محبت یہ ہے کہ ان کی شان وعظمت بیان کی جائے،ان کے نام پر ایصال ثواب کیا جائے اور ان کی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔

نور اللغات میں ہے :

مرثیہ کے معنی یہ ہیں:مردے کی صفت ،مردے کی تعریف ،وہ نظم یا اشعار جن میں کسی شخص کی وفات یا شہادت کا حال اور مصیبتوں کا ذکر ہو ۔(نور اللغات جلد 6 صفحہ 232 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز)

فیروز اللغات اردو میں ہے:

”مرثیہ وہ نظم ہے جس میں مردے کے اوصاف بیان کئے گئے ہوں یا وہ نظم جس میں شہدائے کربلا کے مصائب اور شہادت کا ذکر ہو ۔“

نوحہ کی تعریف

نوحہ بھی مرثیہ کی طرح عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی صیحہ کرنے کے ہیں ( یعنی بلند آواز سے گریہ کرنے کو کہتے ہیں)ماتم کرنا لاش پر چلا کر رونا۔نوحہ اور مرثیہ دونوں ہم معنی ہیں یعنی لاش پر گریہ کرنا چلانا سینہ کوبی کرنا اس کے اوصاف بیان کرنا ۔(فیروز اللغات اردو صفحہ 243 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز)

مشکوٰۃ شریف میں ہے

”عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّائِحَةَ وَالْمُسْتَمِعَةَ.رواہ ابو داؤد“

ترجمہ “روایت ہے حضرت ابوسعید خدری سے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والی اور سننے والی پر لعنت فرمائی ۔(مشکوہ المصابیح کتاب الجنائز باب دفن المیت رقم حدیث 1732 جلد 1 صفحہ 543 مطبوعہ المکتب الاسلامی)

سنن نسائی میں ہے

”وَعَنْ عَلِيٍّ أَنَّهٗ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسلم لَعَنَ آكِلَ الرِّبَا وَمُوَكِلَهٗ وَكَاتِبَهٗ وَمَانِعَ الصَّدَقَةِ وَكَانَ ينْهٰى عَنِ النَّوحِ“

ترجمہ “روایت ہے حضرت علی سے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ آپ نے سود کھانے والے اور کھلانے والے لکھنے والے زکوۃ نہ دینے والے پر لعنت فرمائی اور آپ نے نوحہ سے منع فرماتے تھے ۔(سنن نسائی جلد 2 صفحہ 123 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)

مسند زید میں ہے

”عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلّمَ : ” نَهَى عَنِ النَّوْحِ “

ترجمہ : حضرت علی رضی الله عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہمیں روکا ہے نوحہ کرنے سے۔ (مسند زيد سنة الوفاة:122 كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الصِّيَاحِ وَالنَّوْحِ رقم الحديث: 188۔ صفحہ 174 مطبوعہ شبیر برادرز)

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے

”وعن أبي مالك الأشعري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” أربع في أمتي من أمر الجاهلية لا يتركونهن: الفخر في الأحساب والطعن في الأنساب والاستسقاء بالنجوم والنياحة “. وقال: «النائحة إذا لم تتب قبل موتها تقام يوم القيامة وعليها سربال من قطران ودرع من جرب» . رواه مسلم“

ترجمہ: حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ” زمانہ جاہلیت کی چار باتیں ایسی ہیں جنہیں میری امت کے (کچھ) لوگ نہیں چھوڑیں گے: (1) حسب پر فخر کرنا، (2) نسب پر طعن کرنا (3) ستاروں کے ذریعہ پانی مانگنا (4) نوحہ کرنا۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: نوحہ کرنے والی عورت نے اگر مرنے سے پہلے توبہ نہیں کی تو وہ قیامت کے دن اس حال میں کھڑی کی جائے گی کہ اس کے جسم پر “قطران” (تارکول) کی شلوار اور ” خارش” کا کرتا ہوگا۔(مشكوة المصابيح، کتاب الجنائز، باب دفن الميت، رقم الحدیث:1727، جلد:1، صفحہ:541، مطبوعہ:المکتب الاسلامی)

مراہ المناجیح میں ہے :

” رال میں آگ جلدلگتی ہے اور سخت گرم بھی ہوتی ہے۔جرب وہ کپڑا ہے جو سخت خارش میں پہنایاجاتا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ نائحہ پر اس دن خارش کا عذاب مسلّط ہوگا کیونکہ وہ نوحہ کرکے لوگوں کے دل مجروح کرتی تھی تو قیامت کے دن اسے خارش سے زخمی کیاجائے گا۔اس سے معلوم ہوا کہ نوحہ خواہ عملی ہو یا قولی سخت حرام ہے،چونکہ اکثرعورتیں ہی نوحہ کرتی ہیں اس لیے عمومًا نائحہ تانیث کا صیغہ فرمایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس زمانہ میں نوحہ پربھی فخر ہوتا تھا لہذا اس حدیث سے یہ لازم نہیں کہ امام حسین ا ور دیگر شہداءکربلا کو بھی عذاب ہو کہ ان پر رافضی بہت نوحہ اورکوٹا پیٹی کرتے ہیں کیونکہ ان سرکاروں نے نہ اس کی وصیت کی نہ اس سے راضی ہوئے….مردے کے سچے اوصاف بیان کرنا مذبہ کہلاتا ہے اوراس کے جھوٹے اوصاف بیان کرکے رونا نوحہ ہے۔مذبہ جائز ہے،نوحہ حرام۔حضرت فاطمۃ الزہرہ نے حضور صلی الله علیہ وسلم پر مذبہ کیا تھا نوحہ نہیں۔ ( مشکوٰۃ المصابیح کتاب جنازوں کا بیان باب میت پر رونے کا بیان جلد 2 صفحہ 124 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز)

سچے اوصاف بیان کر کے بھی نوحہ کرنا جائز نہیں۔

مسند زید میں ہے

”عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَيْسَ مِنَّا مَنْ حَلَقَ ، وَلَا مَنْ سَلَقَ ، وَلَا مَنْ خَرَقَ ، وَلَا مَنْ دَعَا بِالْوَيْلِ وَالثُّبُورِ ” . قَالَ زَيْدُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ : السَّلْقُ الصِّيَاحُ وَالْخَرْقُ ، خَرْقُ الْجَيْبِ ، وَالْحَلْقُ حَلْقُ الشَّعْرِ “

ترجمہ : حضرت علی رضی الله عنہ نے فرمایا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : وہ ہم میں سے نہیں جس نے (سوگ میں) بال منڈائے ، چیخ و پکار کی ، گریبان پھاڑا اور ہلاکت و موت کو پکارا۔ امام (اہل بیت) زید بن علی رحمة الله عليه نے فرمایا : “سلق” کا معنی چیخ و پکار، “خرق” کا معنی گریبان پھاڑنا ، اور “حلق” کا معنی بال مونڈنا ہے ۔ (مسند زيد (سنة الوفاة:122) » كِتَابُ الْجَنَائِزِ » بَابُ الصِّيَاحِ وَالنَّوْحِ … رقم الحديث: 187 صفحہ 174 مطبوعہ شبیر برادرز)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

”شہادت نامے نثر ہو یا نظم جو آج کل رائج ہیں اکثر روایات باطلہ و بے سروپا سے مملو اور اکاذیب موضوعہ پر مشتمل ہیں ایسے بیان کا پڑھنا ،سننا خواہ کہیں ہو مطلقاً حرام و ناجائز ہے خصوصاً جب وہ ایسی خرافات کو متضمن ہو جن سے عوام کے عقائد میں تزلزل واقع ہو تو پھر اور بھی زہر قاتل ہے ایسے وجوہ پر نظر فرما کر امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ آئمہ نے حکم فرمایا کہ شہادت نامہ پڑھنا حرام ہے۔“(رسالہ تعزیہ داری صفحہ 6 مطبوعہ رضا اکیڈمی)

احکام شریعت میں ہے :

”محرم کی مجالسوں میں جانا،۔ مرثیہ سننا حرام ہے ۔“(احکام شریعت جلد 1صفحہ 141 مطبوعہ نظامیہ کتب گھر)

بہار شریعت میں ہے :

”مرثیہ میں غلط واقعات نظم کیے جاتے ہیں ، اہل بیتِ کرام کی بے حرمتی اور بے صبری اور جزع فزع کا ذکر کیا جاتا ہے اور چونکہ اکثر مرثیہ رافضیوں ہی کے ہیں ، بعض میں تَبَرَّا بھی ہوتا ہے مگر اس رو میں سنّی بھی اسے بے تکلف پڑھ جاتے ہیں اور انھیں اس کا خیال بھی نہیں ہوتا کہ کیا پڑھ رہے ہیں ، یہ سب ناجائز اور گناہ کے کام ہیں ۔“(بہار شریعت باب مجالس خیر جلد 3 حصہ 16صفحہ 650 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

کتاب الشافی بنام فروع کافی میں شیعہ عالم محمد یعقوب کلینی لکھتا ہے

امام باقر رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا :

”أشَدُّ الجَزَعِ الصُّراخُ بِالوَيل وَ العَويل و لَطمُ الوَجه و الصَّدر وَ جَزُّ ا لشَّعرِ عَنِ النَّواصی و مَن أقامَ النّواحَةَ فَقَد تَرَكَ الصَّبرَ و أخَذَ في غَيرِطريقِه“

ترجمہ:انتہائے جزع ویل عویل کی پکار کرنا ہے،اور منہ پر طمانچہ مارنا ہے،سینہ زنی کرنا اور بال نوچنا اور جس نے نوحہ خوانی و ماتم کیا اس نے صبر کو چھوڑ دیا اور غیر شرعی کام کیا۔ (فروع کافی، جلد1، صفحہ 232 مطبوعہ ظفر شمیم پبلی کیشنز)

مزید محمد یعقوب کلینی لکھتا ہے

” عن ابی عبد ﷲ علیہ السلام قال قال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ضرب المسلم یدہ علی فخذہ عند المصیبۃ احباط لاجرہ “

ترجمہ : امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنے ہاتھ رانوں پر مارنا اس کے اجر وثواب کو ضائع کردیتا ہے ۔ یعنی ماتم سے نیکیاں برباد ہوتی ہیں ۔ (فروع کافی جلد سوم، کتاب الجنائز باب الصبر والجزع جلد 1 صفحہ 233 مطبوعہ شمیم پبلی کیشنز)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا: کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ تعزیہ بنانا اور اس پرنذرنیاز کرناعرائض بامید حاجت براری لٹکانا اور بہ نیت بدعت حسنہ اس کو داخل حسنات جاننا او رموافق شریعت ان امور کو اور جوکچھ اس سے پیدا اور یا متعلق ہوں کتناگناہ ہے، اورزید اگر ان باتوں کوجو فی زماننا متعلق تعزیہ داری وعلم داری کے ہیں موافق مذہب اہل سنت کے تصورکرے تو وہ کس قسم کے مرتکب ہوااور اس پرشرع کی تعزیرکیالازم آتی ہے۔۔۔۔؟

جوابا آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

” افعال مذکورہ جس طرح عوام زمانہ میں رائج ہیں بدعت سیئہ وممنوع وناجائزہیں انہیں داخل ثواب جاننا اور موافق شریعت مذہب اہلسنت ماننا اس سے سخت تروخطائے عقیدہ وجہل اشد ہے، شرعی تعزیر حاکم شرع سلطان کی رائے پرمفوض ہے ۔“ (فتاوی رضویہ،جلد24،صفحہ528،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

مزید فرماتے ہیں:

” پانی یاشربت کی سبیل لگانا جبکہ بہ نیت محمود اور خالصاً لوجہ اﷲ ثواب رسانی ارواح طیبہ ائمہ اطہار مقصود ہوبلاشبہہ بہترومستحب وکارثواب ہے۔۔۔کتب شہادت جو آج کل رائج ہیں اکثر حکایات موضوعہ وروایات باطلہ پرمشتمل ہیں،یوہیں مرثیے ایسی چیزوں کاپڑھنا سننا سب گناہ وحرام ہے۔ ۔۔ایسے ہی ذکر شہادت کو امام حجۃ الاسلام وغیرہ علمائے کرام منع فرماتے ہیں کما ذکرہ امام ابن حجر المکی فی الصواعق المحرقۃ (جیسا کہ امام ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں اسے روایت کیاہے۔ت) ہاں اگرصحیح روایات بیان کی جائیں اور کوئی کلمہ کسی نبی یاملک یااہلبیت یاصحابی کی توہین شان کامبالغہ مدح وغیرہ میں مذکورنہ ہو، نہ وہاں بَین یانوحہ یاسینہ کوبی یاگریبان دری یا ماتم یاتصنّع یاتجدید غم وغیرہ ممنوعات شرعیہ نہ ہوں توذکر شریف فضائل ومناقب حضرت سیدنا امام حسین رضی اﷲ تعالٰی عنہ کابلاشبہہ موجب ثواب ونزول رحمت ہے عند ذکر الصالحین تنزل الرحمۃ (صالحین کے ذکر پررحمت الٰہیہ نازل ہوتی ہے۔ت)(فتاوی
رضویہ،جلد24،صفحہ521۔۔۔رضافاؤنڈیشن،لاہور)

جلاء العیون میں مشہور شیعہ عالم ملا باقر مجلسی لکھتا ہے:

کربلا میں امام حسین رضی ﷲ عنہ کی اپنی بہن کو وصیت

”یااختاہ اتقی اﷲ وتعزی بعزاء اﷲ واعلمی ان اہل الارض یموتون واہل السماء لایبقون جدی خیر منی وابی خیر منی وامی خیر منی واخی خیر منی ولی ولکل مسلم برسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اسوۃ فعزاً مابہذا ونحوہ وقال لہا یا اخیۃ انی اقسمت علیک فابری قسمی لاتشقی علی جیباً ولا تخمشی علی وجہا ولاتدعی علی بالویل والثبور اذا اناہلکت “

ترجمہ : حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ نے کربلا میں اپنی بہن سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو وصیت کی فرمایا ۔ اے پیاری بہن ﷲ سے ڈرنا اور ﷲ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تعزیت کرنا ، خوب سمجھ لو ۔ تمام اہل زمین مرجائیں گے اہل آسمان باقی نہ رہیں گے ، میرے نانا ، میرے بابا ، میری والدہ اور میرے بھائی سب مجھ سے بہتر تھے ۔ میرے اور ہر مسلمان کے لئے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زندگی اورآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ہدایات بہترین نمونہ ہیں ۔ تو انہی کے طریقہ کے مطابق تعزیت کرنا اور فرمایا : اے ماں جائی میں تجھے قسم دلاتا ہوں ۔ میری قسم کی لاج رکھتے ہوئے اسے پورا کر دکھانا ۔ میرے مرنے پر اپنا گریبان نہ پھاڑنا اور میری موت پر اپنے چہرہ کو نہ خراشنا اور نہ ہی ہلاکت اور بربادی کے الفاظ بولنا۔(جلاء العیون جلد 2، صفحہ 553 فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران)

واللہ اعلم عزوجل

ممبر فقہ کورس شاہ

30ذو الحجہ1444ھ19جولائی2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں