انسانی بالوں کی خرید و فروخت کرنا اور ان سے کسی قسم کا نفع اٹھانا ناجائز و گناہ ہے۔

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ آج کل انسانی بال خریدے اور بیچے جارہے ہیں، ان کی خریدو فروخت کرنا کیسا ہے؟  بینوا توجروا.

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

انسانی بالوں کی خرید و فروخت کرنا اور ان سے کسی قسم کا نفع اٹھانا ناجائز و گناہ ہے۔

علاّمہ شامی قدّس سرُّہُ السَّامی لکھتے ہیں:

” قَوْلُهُ (وَشَعْرِ الاِنْسَانِ) وَلَا يَجُوْزُ الْاِنْتِفَاعُ بِهٖ “.

ترجمہ: انسان کے بالوں کی بیع اور ان سے نفع حاصل کرنا ناجائز ہے۔ ( رد المحتار علی الدر المختار، جلد 05، صفحہ 58، مطبوعہ  دار الفکر بیروت )۔

بحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے: ” قَوْلُهُ (وَشَعْرِ الإنْسَانِ وَالْاِنْتِفَاعِ بِهٖ) اَيْ لَمْ يَجُزْ بَيْعُهُ وَالْاِنْتِفَاعُ بِهٖ “.

ترجمہ: انسان کے بالوں کی بیع اور ان سے نفع حاصل کرنا ناجائز ہے۔ ( البحر الرائق شرح کنز الدقائق، جلد 06، صفحہ 88، مطبوعہ دارالکتاب الاسلامی )

ہدایہ شرح بدایۃ المبتدی میں ہے: ” ولا يجوز بيع شعور الإنسان ولا الانتفاع بها “۔

ترجمہ: انسانوں کے بالوں کی بیع کرنا اور ان سے نفع اٹھانا جائز نہیں ہے۔ ( الهدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی، جلد 03،  صفحہ 45، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت – لبنان ).

 بہارِ شریعت میں ہے:  ” انسان کے بال کی بیع درست نہیں اور انہیں کام میں لانا بھی جائز نہیں، مثلاً ان کی چوٹیاں بنا کر عورتیں استعمال کریں حرام ہے، حدیث میں اس پر لعنت فرمائی “. ( بہارِ شریعت، جلد 02، صفحہ 700، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی )

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ الکریم اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

                 کتبہ

سگِ عطار محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

اپنا تبصرہ بھیجیں