میت کے گھر سے تین دن کا کھانا کھانا کیسا ہے؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ میت کے گھر سے تین دن کا کھانا کھانا کیسا ہے؟ بینوا توجروا۔

جواب: الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

ایسا کھانا جو ایامِ موت میں یعنی سوگ کے تین دنوں میں بطور دعوت کھلایا جاتا ہے، وہ ممنوع اور بدعت سیئہ و قبیحہ ہے، اغنیاء( یعنی مالداروں ) کے لیے اس کا کھانا ناجائز ہے، البتہ فقراء کھا سکتے ہیں بشرطیکہ کوئی عاقل بالغ اپنے مالِ خاص سے کرے نہ کہ میت کے ترکہ سے۔

اگر رسم ہو کہ ان دنوں کا کھانا نئی دلہن کے سسرال والے کھلائیں گے یا فلاں رشتہ دار تو یہ بھی ان ایام میں درست نہیں بلکہ اگر کوئی مجبور اپنی عزت بچانے کے لیے کھلائے تو اور زیادہ حرام ہے۔

امام احمد اپنے مسند اور ابن ماجہ سنن میں بہ سند صحیح حضرت جریر بن عبداللہ بجلی سے راویت کرتے ہیں:

“کنا نعد الاجتماع الی اھل المیّت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ”۔

ترجمہ: ہم گروہِ صحابہ اہل میّت کے یہاں جمع ہونے اور ان کے کھانا تیار کرانے کو مردے کی نیاحت سے شمار کرتے تھے۔

(مسند احمد بن حنبل مروی از مسند عبداللہ بن عمرو دارالفکر بیروت ۲ /۲۰۴)

(سنن ابن ماجہ باب ماجاء فی النہی عن الاجتماع الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۱۷)

امام محقق علی الاطلاق فتح القدیر شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں:

” یکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من اھل المیّت لانہ شرع فی السرور لافی الشرور وھی بدعۃ مستقبحۃ “۔

ترجمہ: اہل میّت کی طرف سے کھانے کی ضیافت تیار کرنی منع ہے کہ شرع نے ضیافت خوشی میں رکھی ہے نہ کہ غمی میں۔ اوریہ بدعت شنیعہ ہے۔

(فتح القدیر فصل فی الدفن مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲ /۱۰۲)

اسی طرح علامہ حسن شرنبلالی نے مراقی الفلاح میں فرمایا:

” ولفظہ یکرہ الضیافۃ من اھل المیّت لانھا شرعت فی السرور لا فی شرور وھی بدعۃ مستقبحۃ “.

ترجمہ: ان کے الفاظ “میّت والوں کی جانب سے ضیافت منع ہے” کی وجہ یہ ہے کہ اسے شریعت نے خوشی میں رکھا ہے نہ کہ غمی میں اور یہ بری بدعت ہے۔

(مراقی الفلاح علٰی ھامش حاشیۃ الطحطاوی فصل فی حملہا ودفنہانور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص۳۳۹)۔

علامہ شامی ردالمحتار میں فرماتے ہیں:

” اطال ذلک فی المعراج وقال وھذہ الافعال کلھا للسمعۃ والریاء فیتحرز عنھا “.

یعنی معراج الدرایہ شرح ہدایہ نے اس مسئلہ میں بہت طویل کلام کیا اور فرمایا: یہ سب ناموری اور دکھاوے کے کام ہیں ان سے احتراز کیا جائے۔

(ردالمحتار باب صلٰوۃ الجنائز مطلب فی کراہیۃ الضیافۃ الخ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر ۱ /۲۰۳)

فتاوی قاضی خان میں ہے:

”إن اتخذ ولی المیت طعاما للفقراء کان حسنا إلا أن یکون فی الورثۃ صغیر فلا یتخذ ذٰلک من الترکۃ“۔

ترجمہ: ولی میت اگر فقراء کے لیے کھانا تیار کرائے تو اچھا ہے، لیکن اگر ورثہ میں کوئی نابالغ ہے تو پھر (میت کے ) ترکہ سے نہ کرے۔ (بلکہ اپنے مالِ خاص سے کرے)۔

(فتاوٰی قاضی خاں کتاب الحظروالاباحۃ منشی نولکشور لکھنؤ ۴ /۷۸۱)

* نیز اگر یہ کھانا میت کے ترکے میں سے کھلایا جا رہا ہے تو یہ لحاظ بھی ضروری ہے کہ ورثہ میں  کوئی نابالغ نہ ہو ورنہ سخت حرام ہے۔

میرے آقا سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”غالباً ورثہ میں کوئی یتیم یا اور بچہ نابالغ ہوتا ہے یا اور ورثہ موجود نہیں ہوتے، نہ ان سے اس کا اذن لیا جاتا ہے، جب تو یہ امر سخت حرامِ شدید پر متضمن ہوتا ہے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ﴿ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمْوٰلَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمْ نَارًا ؕوَسَیَصْلَوْنَ سَعِیۡرًا﴾ ترجمہ: بے شک جو لوگ یتیموں کے مال نا حق کھاتے ہیں، بلا شبہہ وہ اپنے پیٹوں میں انگارے بھرتے ہیں اور قریب ہے کہ جہنم کے گہراؤ میں جائیں گے۔ ( القرآن پارہ 04 سورۃ النساء آیت 10)

مالِ غیر میں بے اذنِ غیر تصرف (یعنی کسی دوسرے کے مال میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا) خود  ناجائز ہے۔ قال تعالی ﴿ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالْبٰطِلِ ﴾ ترجمہ: اپنے مال آپس میں نا حق نہ کھاؤ۔ ( القرآن پارہ 02 سورۃ البقرہ آیت 188)

خصوصاً نابالغ کا مال ضائع کرنا جس کا اختیار نہ خود اسے ہے، نہ اس کے باپ، نہ اس کے وصی کو، لأن الولایۃ للنظر لا للضرر علی الخصوص (اس لیے کہ ولایت فائدے میں نظر کے لیے ہے، نہ کہ خصوصاً ضرر کے لیے) اور اگر ان میں کوئی یتیم ہوا، تو آفت سخت تر ہے، والعیاذ باللہ رب العالمین۔

(فتاوی رضویہ، جلد 9 ،ص 664،665 ،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)۔

* اور سوگ کے تین دنوں کے بعد چالیسویں تک روزانہ، جمعراتوں، دسویں، بیسویں، چالیسویں و سالانہ وغیرہ میں جو کھانا کھلایا جاتا ہے ، اس  میں بھی بہتر یہی ہے کہ فقراء ہی کھائیں، اغنیاء کو یہ کھانا مناسب نہیں، مگر منع بھی نہیں۔ البتہ اگر سوگ کے دنوں میں بھی اور بعد میں جمعرات، چالیسویں، سالانہ وغیرہ کا کھانا میلاد شریف، گیارہویں شریف یا کسی بزرگ کی نیاز کی نیت سے کھلایا جائے ،تو پھر اس کا کھانا بلا کراہت اغنیاء و فقراء کے لیے جائز ہے، بلکہ یہ تبرک ہے اور ضرور  باعث برکت ہے۔

میرے آقا سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:” طعام تین قسم ہے: ایک وہ کہ عوام ایامِ موت میں بطور دعوت کرتے ہیں، یہ ناجائز و ممنوع ہے۔ لأن الدعوۃ إنما شرعت فی السرور لا فی الشرور کما فی فتح القدیر و غیرہ من کتب الصدور۔ اس لیے کہ دعوت  شریعت نے خوشی میں رکھی ہے، غمی میں نہیں، جیسا کہ فتح القدیر وغیرہ کتب اکابر میں ہے۔ اغنیاء کو اس کا کھانا جائز نہیں۔

دوسرے وہ طعام کہ اپنے اموات کو ایصال ثواب کے لیے بہ نیت تصدق (یعنی صدقہ کی نیت سے) کیا جاتا ہے، فقراء اس کے لیے احق ہیں، اغنیاء کو نہ چاہیے۔

تیسرے وہ طعام کہ نذور ارواح طیبہ حضرات انبیاء و اولیاء علیہم الصلوٰۃ و الثناء کیا جاتا ہے اور فقراء و اغنیاء سب کو بطور تبرک دیا جاتا ہے، یہ سب کو بلا تکلف روا (یعنی جائز) ہے اور وہ ضرور باعث برکت ہے، برکت والوں کی طرف جو چیز نسبت کی جاتی ہے، اس میں برکت آ جاتی ہے، مسلمان اس کھانے کی تعظیم کرتے ہیں اور وہ اس میں مصیب ہیں، ائمہ دین نے بسند صحیح روایت فرمایا کہ ایک مجلس سماع صوفیاء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں نذر حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بدرہ زر رکھا ہوا تھا، حالت وجد میں ایک صاحب کا پاؤں اس سے لگ گیا، فوراً رب العزت جل و علا نے ان کا حال ولایت سلب فرما لیا، نسئل اللہ العفو و العافیۃ۔‘‘

 (فتاوی رضویہ، جلد9، ص 614،رضا فاونڈیشن، لاھور)

ایک اور مقام پر ایصال ثواب کی نیت سے دیے گئے کھانے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ” اغنیا  بھی  کھا  سکتے  ہیں، سوا  اس کھانے  کے جو موت میں بطور دعوت کیا جائے، وہ ممنوع و بدعت ہے اور عوام

مسلمین کی فاتحہ چہلم، برسی، ششماہی کا کھانا بھی اغنیاء کومناسب نہیں۔

(فتاوی رضویہ، جلد 9،ص 610،رضا فاونڈیشن،لاھور)

ایک اور مقام پر آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”بغیر دعوت کے جمعراتوں، چالیسویں، چھ ماہی، برسی میں جو بھاجی کی طرح اغنیاء کو بانٹا جاتا ہے، وہ بھی اگرچہ بے معنی ہے، مگر اس کا کھانا منع نہیں، بہتر یہ ہے کہ غنی نہ کھائے اور فقیر کو کچھ مضائقہ نہیں کہ وہی اس کے مستحق ہیں۔

(فتاوی رضویہ، جلد 9،ص673 ،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور )

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ الکریم اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

              کتبہ

سگِ عطار محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

( مورخہ 30 جمادی الثانی 1442ھ بمطابق 13 فروری 2021 بروز ہفتہ)

اپنا تبصرہ بھیجیں