سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نور احمد نے دوشادیاں کی تھیں،پہلی شادی سے ایک بیٹا اور دوبیٹیاں تھیں جن کی ماں فوت ہوگئی تھی،پھر نور احمد نے دوسری شادی کی جس سے ایک بیٹی اور ایک بیٹا پیدا ہوا،نور احمد کا انتقال ہونےکے بعد اس کی وراثت تقسیم ہوگئی تھی ،اب دوسری بیوی سے نور احمد کا جو بیٹا ہے وہ فوت ہوگیا ہے،اس کی شادی نہیں ہوئی تھی ،ورثاء میں اس کی والدہ ،سگی بہن، باپ کی طرف سے 1بھائی اور 2بہنیں ہیں۔دادا کاانتقال پہلے ہی ہوچکا ہے۔صورت مسئولہ میں اس کی جائیداد کیسے تقسیم ہوگی؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب
پوچھی گئی صورت میں قرض و وصیت کو پورا کرنے اور کوئی مانع ارث نہ ہونے کی صورت میں کل مال کو12 پرتقسیم کریں گے۔ماں کو 2،سگی بہن کو 6،ہر باپ شریک بہن کو 1اوربا پ شریک بھائی کو2حصے دیے جائیں گے۔صورت مسئولہ میں رشتہ اخوت کے دو افراد کی موجودگی کی وجہ سے ماں چھٹے حصے کی حقدار ہوئی۔حقیقی بہن اکیلی تھی اس لئے آدھی جائیداد کی حقدار ہوئی۔نیز باپ شریک بہن کیساتھ عصبہ بنفسہ باپ شریک بھائی موجود تھا اس لئے یہ بھی عصبہ بغیرہ بن گئیں۔
مسئلہ:6X2=12
ماں: 1/6 (12/6=2)
1سگی بہن :1/2 (12X1/2=6)
باقی: (12-2-6=4)
2باپ شریک بہنیں: 2
1باپ شریک بھائی : 2 (1X2=2)
ٹوٹل: (2+6+2+2=12)
قران پاک میں ہے: مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍؕ ترجمہ:تقسیم کا ری وصیت اور دین کے بعد ہوگی۔ (القران،4/11)
قران پاک میں ہے:فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ ترجمہ:میت کے کئی بھائی بہن ہوں تو ماں کوچھٹا ملتا ہے۔ (القران،4/11)
ہندیہ میں ہے:الأم ولها ۔۔۔السدس مع الولد وولد الابن أو اثنين من الإخوة والأخوات من أي جهة كانواترجمہ:ماں کو اولاد یا بیٹے کی اولاد،یا دو کسی بھی طرح کے بہن بھائیوں کی موجودگی میں چھٹا حصہ ملتا ہے۔ (فتاوی عالمگیری،کتاب الفرائض،6/449،دارالفکر بیروت)
ہندیہ میں ہے:الأخوات لأب وأم للواحدة النصف ترجمہ:صرف ایک حقیقی بہن ہو تو آدھی جائیداد ملتی ہے۔ (فتاوی عالمگیری،کتاب الفرائض،6/450،دارالفکر بیروت)
ہندیہ میں ہے:الأخوات لأب ۔۔۔ ولهن السدس مع الأخت لأب وأم تكملة للثلثين ولا يرثن مع الأختين لأب وأم إلا أن يكون معهن أخ لأب فيعصبهن فيكون للأختين لأب وأم الثلثان، والباقي بين أولاد الأب للذكر مثل حظ الأنثيين ۔ ترجمہ: باپ شریک بہنوں کو ایک حقیقی بہن کو موجودگی میں چھٹا ملتا ہے تاکہ بہنوں کے دو تہائی پورے ہوجائیں۔اوردوحقیقی بہنوں کی موجودگی میں کچھ نہیں ملتا۔ہاں اگر باپ شریک بھائی بھی موجود ہو تو وہ انھیں عصبہ بنالے گا تو دوسری صورت میں حقیقی بہنوں کودو تہائی ملنے کے باوجود باقی باپ شریک بہن بھائیوں میں ایسے تقسیم ہوگا کہ بھائیوں کو بہنوں سےڈبل ملے گا۔ (فتاوی عالمگیری،کتاب الفرائض،6/450،دارالفکر بیروت)
سراجی میں ہے: َّوالعصبۃ کل من یاخذ ما ابقتہ اصحاب الفرائض۔ ترجمہ:عصبہ وہ ہے جو اصحابِ فرائض سے کچھ بچے تو جو بچے سارے کا حقدار۔ (سراجی،العصبات،ص9،مکتبہ بشری)
سراجی میں ہے:عصبۃ بنفسہ فکل ذکر لا تدخل فی نسبتہ المیت انثی۔۔۔۔جزء المیت ای البنون ثم بنوھم وان سجلوا،ثم اصلہ ای الاب۔۔۔ثم جزءابیہ ای الاخوۃ ثم بنوھم وان سفلوا۔۔۔ثم جزء جدہ الاعمام ثم بنوھم وان سفلوا۔ ترجمہ:عصبہ بنفسہ ہر ہو مرد کہ میت کی طرف نسبت کرتے ہوئے درمیان میں عورت نہ آئے جیسا میت کی اولاد یعنی بیٹے،پھر باپ پھر بھائی،پھر انکے بیٹے نیچے تک،پھر چچا پھر انکے بیٹے نیچے تک۔ (سراجی،احوال عصبہ بنفسہ،ص36،مکتبہ بشری)
تنویر مع درمختار میں ہے: (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب۔ ترجمہ:بھائیوں میں پہلے حقیقی بھائی عصبہ بنتا ہے پھر باپ شریک بھائی پھر حقیقی بھائی کا بیٹا پھر باپ شریک بھائی کا بیٹا۔ (فتاوی شامی،کتاب الفرائض،فصل فی العصبات،6/774،دارالفکر بیروت)
سراجی میں ہے:واذااختلط النصف بکل الثانی او ببعضہ فھو من ستۃ۔ ترجمہ:جب نوع ثانی (1/3,2/3,1/6)کے ساتھ2/1آجائے تو مسئلہ6 سے بنے گا۔ (سراجی،باب مخارج الفروض،ص49،مکتبہ بشری)
تبیین الحقائق شرح کنز میں ہے: فإن كان الأقل جزءا للأكثر فهي المداخلة۔۔۔ المداخلة فإن العمل فيها كالموافقة إذا كانت الرءوس أكثر۔ ترجمہ:اگر دو اعداد میں اس طرح نسبت ہو کہ چھوٹا عدد بڑے کا جزء ہو نسبت تداخل ہو گی۔تو اگر عدد رءوس بڑاہو تو نسبت تداخل والا عمل ہی ہوگا۔
(تبیین شرح کنز،کتاب الفرائض، التصحیح فی الفرائض،6/245،دار الکتاب الاسلامی)
مفتی وقارالدین صاحب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:اگر ایک فریق پر کسر واقع ہو اور ان کے عدد سہام (حصوں کی تعداد) اور عدد رءوس میں نسبت توافق ہو تو اس فریق کے عدد رءوس کا عدد وفق نکال کر اسے اصل مسئلہ میں ضرب دیں گے اب جو حاصل ہو گا وہ تصحیح مسئلہ ہے۔
(بہار شریعت،اعداد کے درمیان نسبتوں کا بیان،3/1148،مکتبۃ المدینہ کراچی)
تیمور احمد صدیقی
10.11.22
14ربیع الثانی 1444