۔ورثاء میں خاوند اورایک سگی بہن

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہندہ کا انتقال چودہ فروری کو ہوا ،ان کے والدین ،دادا،دادی اور نانی پہلے ہی انتقال کرگئے تھے،ان کی اولاد نہیں ہوئی ۔ورثاء میں خاوند اورایک سگی بہن ہے ،دیگر بہن بھائی زندگی میں ہی فوت ہوگئے تھے۔سگے بھائیوں کی اولاد میں چار بیٹے اور ماں شریک بھائی کی اولاد میں چار بیٹے ہیں۔ان میں وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟

ہندہ نے اپنی کچھ رقم ہمایوں بابر( جوکہ ہندہ کا وارث نہیں ہے بلکہ صرف اس کی بہن کا لے پالک بیٹا ہے ) کے پاس امانتا رکھوائی تھی، ہمایوں نے ان کی وفات کے بعدعاقل بالغ ورثا یعنی ان کے شوہر اوربہن کی اجازت ومرضی کے ساتھ اس رقم میں سے کفن دفن کا انتظام کیا ،ان کی بہن وہ اخراجات واپس نہیں لینا چاہتی ۔ ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

پوچھی گئی صورت میں اسکے کفن ودفن کے مصارف تو شوہر پر ہی واجب تھے،اس مسئلے میں کیونکہ بالغ شوہر اور بہن ہی وراثت کے کل مال کے حقدار تھے اور جب انھوں نے کفن و دفن کی اجازت دے دی تو یہ جائز ہو گیا۔اس کے بعد قرض و وصیت کو پورا کرنے اور کوئی مانع ارث نہ ہونے کی صورت میں آدھی آدھی جائیداد شوہر اور بہن کو دے دیں گے۔اولاد کی عدم موجودگی کی وجہ سے شوہر کو نصف اور ایک ہی بہن ہونے کی وجہ سے یہ بھی نصف جائیداد کی حقدار ہوئی۔سگے بھتیجوں کے لئے کچھ نہ بچا اس لئے وراثت سے حصہ حاصل نہ کرسکے نیز اخیافی بھتیھے نہ اصحابِ فرائض ہیں نہ عصبات اس لئے وراثت سے محروم رہے۔

مسئلہ:2

شوہر: 1/2 (2X1/2=1)

بہن: 1/2 (2X1/2=1)

4سگے بھتیجے:0

4اخیافی بھتیجے:محروم

ٹوٹل: (1+1=2)

بہار شریعت میں ہے:عورت نے اگرچہ مال چھوڑا اس کا کفن شوہر کے ذمہ ہےبشرطیکہ موت کے وقت کوئی ایسی بات نہ پائی گئی جس سے عورت کا نفقہ شوہر پر سے ساقط ہوتا ہوجاتا۔۔۔یہ جو کہا گیا کہ فلاں پر کفن واجب ہے اس سے مراد کفن شرعی ہے۔یوہیں باقی سامانِ تجہیز مثلا خوشبو اور غسال اور لے جانے والوں کی اجرت اور دفن کے مصارف،سب میں شرعی مقدار مراد ہے۔۔۔باقی اور باتیں اگر میت کے مال سے کی گئیں اور ورثہ بالغ ہوں اور سب وارثوں نے اجازت بھی دے دی ہو تو جائز ہے ۔ (بہارشریعت،کفن کا بیان،1/825،مکتبۃ المدینہ)

قران پاک میں ہے: مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍؕ ترجمہ:تقسیم کا ری وصیت اور دین کے بعد ہوگی۔ (القران،4/11)

قران پاک میں ہے: وَ لَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌۚ-فَاِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ

ترجمہ:تمھارے لئے بیویوں کے مال سے آدھا ہو گا اگر انکی اولاد نہ ہو اگر ہو تو چوتھائی۔ (القران،4/11)

ہندیہ میں ہے: الأخوات لأب وأم للواحدة النصف ترجمہ:حقیقی بہن اکیلی ہو تو آدھی جائیداد کی حقدار ہے۔ (فتاوی عالمگیری،کتاب الفرائض،6/450،دارالفکر بیروت)

سراجی میں ہے: َّوالعصبۃ کل من یاخذ ما ابقتہ اصحاب الفرائض۔ ترجمہ:عصبہ وہ ہے جو اصحابِ فرائض سے کچھ بچے تو جو بچے سارے کا حقدار۔ (سراجی،العصبات،ص9،مکتبہ بشری)

سراجی میں ہے:عصبۃ بنفسہ فکل ذکر لا تدخل فی نسبتہ المیت انثی۔۔۔۔جزء المیت ای البنون ۔۔ثم اصلہ ای الاب۔۔۔ثم جزءابیہ ای الاخوۃ ثم بنوھم وان سفلوا۔۔۔ثم جزء جدہ الاعمام ثم بنوھم وان سفلوا۔ ترجمہ:عصبہ بنفسہ ہر ہو مرد کہ میت کی طرف نسبت کرتے ہوئے درمیان میں عورت نہ آئے جیسا میت کی اولاد یعنی بیٹے،پھر باپ پھر بھائی،پھر انکے بیٹے نیچے تک،پھر چچا پھر انکے بیٹے نیچے تک۔ (سراجی،احوال عصبہ بنفسہ،ص36،مکتبہ بشری)

در مع تنویر میں ہے: (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل) ترجمہ:عصبہ میں باپ دادا کے بعد حقیقی بھائی کا نمبر ہے پھر علاتی بھائی کاپھر حقیقی بھائی کے بیٹے کا پھر علاتی بھائی کے بیٹے کا۔ (فتاوی شامی،کتاب الفرائض،6/774،دارالفکر بیروت)

تیمور احمد صدیقی

اپنا تبصرہ بھیجیں