خواتین کا بغیر محرم اکیلے بیرونِ ملک تعلیم کے لیے جانا کیسا ؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ خواتین کا بغیر محرم اکیلے بیرونِ ملک تعلیم کے لیے جانا کیسا ؟ اور ایسی خاتون کی ویزا و یونیورسٹی داخلہ کے لیے رہنمائی کرنا کیسا ہے جن کا معلوم ہو کہ یہ اکیلی ہی آئیں گی اور شوہر کے آنے تک اکیلی رہیں گی ؟ بینوا توجروا۔

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

خواتین کا بغیر محرم اکیلے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانا ناجائز و حرام ہے؛ کیونکہ شریعت مطہرہ میں کسی بھی عورت کو شوہر یا محرم کے بغیر شرعی مسافت یعنی 92 کلو میٹر کی مسافت پر واقع کسی جگہ جانا حرام ہے، خواہ وہ سفر کسی بھی غرض یا مقصد کے لیے ہو۔ اس عورت کا بغیر محرم پردیس میں رہنا بھی ممنوع ہے کہ باعث فتنہ ہے۔
اِسی طرح ایسی خاتون کی ویزا و یونیورسٹی داخلہ کے لیے رہنمائی کرنا بھی ناجائز و حرام کام ہے؛ کیونکہ یہ گناہ کے کام میں اس کی مدد کرنا ہے جس سے قرآنِ کریم میں منع کیا گیا ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:” عن أبي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، أن تسافر سفرا يكون ثلاثة أيام فصاعدا، إلا ومعها أبوها، أو ابنها، أو زوجها، أو أخوها، أو ذو محرم منها “.

ترجمہ: حضرتِ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے، اس کے لیے تین دن یا اس سے زیادہ کا سفر کرنا حلال نہیں ہے، مگر جبکہ اس کے ساتھ اس کا باپ یا بیٹا یا شوہر یا بھائی یا اس کا کوئی محرم ہو۔ (صحیح مسلم، باب سفر المرأۃ مع محرم الی حج وغیرہ، جلد 02، صفحہ 977، مطبوعہ دارِ احیاء التراث العربی بیروت )۔

ایک اور حدیثِ پاک میں ہے: ” عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا يحل لامرأة، تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم “.

ترجمہ: حضرتِ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے، اس کے لیے تین دن یا اس سے زیادہ کا سفر کرنا حلال نہیں ہے، مگر جبکہ اس کے ساتھ محرم ہو۔ (صحیح مسلم، باب سفر المرأۃ مع محرم الی حج وغیرہ، جلد 02، صفحہ 975، مطبوعہ دارِ احیاء التراث العربی بیروت )۔

سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں : ” عورت اگرچہ عفیفہ ( یعنی پاکدامن ) یا ضعیفہ ( یعنی بوڑھی ) ہو ، اسے بے شوہر یا محرم سفر کو جانا، حرام ہے۔ اگر چلی جائے گی، گنہگار ہوگی، ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا “۔ ( فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 706، 707 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور )۔

گناہ کے کاموں میں تعاون نہ کرنے کے بارے میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ”وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪- وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ “.

ترجمہ کنزالایمان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے۔ ( پارہ 06، سورۃ المائدہ، آیت 06 )۔

آہت کے اس حصے کے تحت تفسیرِ صراط الجنان میں مفتی قاسم قادری صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں ” اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کا حکم دیا ہے (1) نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا۔ (2) گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرنے کا۔ بِرسے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے۔ اِثْم سے مراد گناہ ہے اور عُدْوَان سے مراد اللہ تعالیٰ کی حدود میں حد سے بڑھنا۔ (جلالین، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۹۴)۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبہ

سگِ عطار ابو احمد محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

اپنا تبصرہ بھیجیں