خون کی کمی کے باعث حمل گرانا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ دو ماہ سے کم کا حمل ہے ڈاکٹر نے عورت کو کہا ہے کہ آپ اتنی طاقت نہیں رکھتیں کہ اس کو پیدا کر سکیں یعنی کہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے خون کی بھی کمی ہے پہلے بھی تین آپریشن ہو چکے ہیں تو کیا حمل گرا سکتے ہیں؟

بسم الله الرحمن الرحيم

الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

حمل اگر ایک سو بیس دن کا ہوگیا ہو تو اب اسے ضائع کرنا حرام اور قتل کی طرح ہے کیونکہ ایک سو بیس دن(120) میں اس میں جان پڑ جاتی ہے، 120 دن سے کم کا حمل ہو تو بھی بلا عذر شرعی ساقط کروانا ناجائز ہے البتہ عذر ہو مثلا حمل کی وجہ سے دودھ خشک ہوجانے اور بچہ کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہے یا عورت کے بہت زیادہ کمزور ہونے کے سبب اس کی جان خطرے میں پڑنے کا گمان غالب ہے تو حمل ساقط کروانے کی اجازت ہے۔صورت مسئولہ میں اگر واقعی معاملہ خطرناک ہے اور عورت کی جان جانے کا صحیح اندیشہ ہے تو حمل ساقط کروانا جائز ہوگا۔

در مختار میں ہے:”و یکرہ ان تسقی لاسقاط حملھا  و جاز لعذر حیث لا یتصور” ترجمہ:عورت کا حمل کو ساقط کرنے کے لئے دوا استعمال کرنا ناجائز ہے اور کوئی عذر ہو تو اعضاء بننے سے پہلے تک جائز ہے۔(درمختار،جلد 9 کتاب الحظر و الاباحۃ،صفحہ 709،دار المعرفہ)

فتاوی شامی میں “جاز لعذر” کے تحت ہے:”کالمرضعۃ اذا ظہر بھا الحبل و انقطع لبنھا و لیس لابی الصبی ما یستاجر بہ الظئر و یخاف ھلاک الولد قالوا یباح لھا ان تعالج فی استنزال الدم ما دام الحمل مضغۃ او علقۃ و لم یخلق لہ عضو و قدروا تلک المدۃ بمائۃ و عشرین یوما و جاز لانۃ لیس بآدمی و فیہ صیانہ الآدمی۔”ترجمہ:جیسا کہ دودھ پلانے والی کو حمل ٹھہر گیا اور اس کا دودھ خشک ہوگیا اور بچہ کے باپ کی استطاعت نہیں کہ وہ دایہ میں اجرت پر رکھ سکے اور اس میں بچہ کے ہلاک ہونے کا خوف ہے تو فقہاء نے فرمایا کہ عورت کے لئے جائز ہے کہ حمل ساقط کرنے کے لئے دوا استعمال کرلے جب تک حمل خون یا گوشت کا لوتھڑا ہو اور اس کا کوئی عضو نہ بنا ہو اور علماء نے اس کی مدت  ایک سو بیس دن بیان کی ہے اور حمل ساقط کروانا اس لئے جائز ہے کہ اس میں روح نہیں پڑی اور اسقاط حمل میں ذی روح کی جان بچانا ہے۔(درمختار،جلد 9 کتاب الحظر و الاباحۃ،صفحہ 710،دار المعرفہ)

فتاوی رضویہ میں ہے:”جان پڑجانے کے بعد اسقاط حمل حرام ہے، اور ایسا کرنے والا گویا قاتل ہے، اور جان پڑنے سے پہلے اگر کوئی ضرورت ہے تو حرج نہیں۔”(فتاوی رضویہ،جلد 24،صفحہ 207،رضا فاؤنڈیشن)

حبیب الفتاوی میں ہے:”شرعی ضرورت و عذر کی بنا پر یہ عمل کیا جائے کہ زوجین میں سے کوئی فرد یا دونوں حد درجہ کمزور ہوچکے ہیں یا بیمار ہوں یا عورت بار حمل از ابتدا تا انتہا برداشت کرنے کے قابل نہ ہو بلکہ اس کی جان و صحت کو خطرہ میں پڑنے کا ظن غالب ہو تو ایسی صورت میں عمل مذکور(اسقاط حمل) جائز ہوگا۔(حبیب الفتاوی،جلد 4،صفحہ 13،شبیر برادرز)

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ : ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی بن محمد اسماعیل

اپنا تبصرہ بھیجیں