کیا عورت بالوں کو کلر لگا سکتی ہے

1 – کیا عورت بالوں کو کلر لگا سکتی ہے؟

2- اور اس میں وضو و غسل ہو جائے گا؟

       اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

      اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

1 – عورت کے لیے اپنے سفید بالوں کو سیاہ رنگ کے علاوہ مہندی وغیرہ سے رنگنا مستحب ہے اور صرف مہندی سے رنگنے کی بجائے مہندی میں کتم ( ایک قسم کی گھاس جو زیتون کے پتوں کے مشابہ ہوتی ہے اور اسکا رنگ گہرا سرخ مائل بسیاہی ہوتا ہے)کی پتیاں ملا کر گہرے سرخ رنگ سے رنگنا بہتر ہے، اور زرد رنگ سب سے بہتر ہے.

اور سیاہ بالوں کو کوئ گولڈن وغیرہ رنگ لگانا چاہے تو لگا سکتی ہے جبکہ فاسقہ عورت سے مشابہت نہ ہو.

البتہ کالی مہندی یا کالے کلر سے سفید بالوں کو کالا کرنا مجاہدین کے علاوہ مرد کی طرح عورت کو بھی ناجائز و حرام ہے.

الجوھرۃالنیرۃمیں ہے : ”وأما خضب الشیب بالحناء،فلابأس بہ للرجال والنساء“یعنی مردوں اورعورتوں کے لئےسفیدبالوں کومہندی سے رنگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (الجوھرۃالنیرۃ،کتاب الحظروالاباحۃ ، ج02،ص617،مطبوعہ کراچی)

بخاری شریف میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:”إن الیهودوالنصاری لا یصبغون فخالفوهم“ ترجمہ : یعنی بے شک یہود ونصاری خضاب نہیں کرتے تم ان کی مخالفت کرو۔ (صحیح البخاری،کتاب اللباس،باب الخضاب، جلد7،صفحہ161،دار طوق النجاۃ،مصر)

اس کی شرح کرتے ہوئےعلامہ بدرالدین عینی عمدۃالقاری میں  فرماتے ہیں:”(لا يصبغون)أي:شيب الشعر، وهو مندوب إليه لأنه صلى الله عليه وسلم أمر بمخالفتهم“ یعنی یہود ونصاریٰ بڑھاپے کے بالوں (سفیدبالوں)کو خضاب نہیں لگاتے ۔سفید بالوں کو خضاب کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب تھا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود ونصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیا ہے۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ،باب ماذکر عن بنی اسرائیل، ج16، ص46،دار احیاءالتراث العربی)

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں: ”لہذا اپنے سر کے بال اور ڈاڑھیاں جب سفید ہوجائیں تو مہندی سے خضاب لگالیا کرو،یہ حکم استحبابی ہے مہندی سے خضاب کرتے رہنا بہتر ہے۔“ (مراۃ المناجیح ،باب الترجل ،ج6،ص129، قادری پبلشرز)

امام اہلسنت الشاہ امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمٰن فرماتے ہیں:” تنہامہندی مستحب ہے اور اس میں کتم کی پتیاں ملاکر کہ ایک گھاس مشابہ برگ زیتون ہےجس کا رنگ گہرا سرخ مائل بسیاہی ہوتا ہے اس سے بہتر اور زرد رنگ سب سے بہتر اور سیاہ وسمے کا ہو خواہ کسی چیز کامطلقاً حرام ہے۔ مگر مجاہدین کو ۔

سنن ابی داؤد میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ہے:مر علی النبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم رجل قد خضب بالحناء فقال ما احسن ھذا قال فمراٰخرقد خضب بالحناء و الکتم فقال ھذا احسن من ھذا ثم مراٰخر قد خضب بالصفر فقال ھذا احسن من ھذا کلہ (یعنی حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے ایک صاحب مہندی کا خضاب کیے گزرے۔فرمایا یہ کیا خوب ہے۔ پھر دوسرے گزرے انھوں نے مہندی اور کتم ملا کر خضاب کیا تھا۔ فرمایا: یہ اس سے بہتر ہے، پھر تیسرے زرد خضاب کیے گزرے۔ فرمایا: یہ ان سب سے بہتر ہے)“ (فتاوی رضویہ، ج23، ص686،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

فاسقوں کی مشابہت سے بچنا چاہیے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “من تشبه بقوم فهو منهم”

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے انہی میں سے ہے. (أبو داود ,سنن أبي داود ، حدیث 4031 ، باب فی لبس الشھرۃ)

مرقاۃ المفاتيح میں اس حدیث کے تحت ہے ” أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. ترجمہ :یعنی جس نے لباس وغیرہ میں کفار سے یا فساق یا فجار یا صوفیا و نیکوکاروں سے مشابہت اختیار کی (وہ انہی میں سے ہے) (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، حدیث 4347 ، کتاب اللباس)

فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے : ” آدمی کو بد وضع لوگوں کی وضع سے بھی بچنے کا حکم ہے یہاں تک کہ علماء درزی اور موچی کو فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص فاسقوں کے وضع کے کپڑے یا جوتے سلوائے نہ سیئے اگرچہ اس میں اجر کثیر ملتا ہو. (فتاوی رضویہ،ج 22، ص172،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

کالاخضاب لگانے والوں کے متعلق حدیث  شریف میں ہے ” عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکون قوم فی اٰخر الزمان یخضبون بھذا السواد کحواصل الحمام لا یجدون رائحۃ الجنۃ“  ترجمہ : حضرت سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آخری زمانے میں کچھ لوگ سیاہ خضاب لگائیں گے جیسے کبوتروں کے پوٹے وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھیں گے۔ (سنن أبی داؤد،باب ما جاء فی خضاب السواد ،ج2،ص226، مطبوعہ لاهور)

اس حدیث کے تحت مفتی احمدیارخان نعیمی  علیہ الرحمۃ مرأۃالمناجیح میں فرماتے ہیں: ”سیاہ خضاب مطلقًا مکروہ تحریمی ہے۔مرد و عورت ، سر داڑھی سب اسی ممانعت میں داخل ہیں۔“ (مرأۃالمناجیح،ج06،ص140،قادری پبلشرز)

فتاوی رضویہ میں مردوعورت کے سیاہ خضاب کرنے کومثلہ لکھا ہے، جوکہ حرام ہے ۔ چنانچہ امام اہلسنت فرماتے ہیں:”طبرانی معجم کبیر میں بسند حسن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:من مثل بالشعر فلیس لہ عندﷲ خلاق(جوبالوں کے ساتھ مثلہ کرے اللہ عزوجل کے یہاں اس کا کچھ حصہ نہیں) والعیاذ باللہ رب العالمین یہ حدیث خاص مسئلہ مثلہ مُو میں ہے بالوں کا مثلہ یہی جو کلمات ائمہ سے مذکور ہوا کہ عورت سر کے بال  منڈالے یا مرد داڑھی یا مرد خواہ عورت بھنویں (منڈائے)کما یفعلہ کفرۃ الھند فی الحداد (جیسے ہندوستان کے کفار لوگ سوگ مناتے ہوئے ایسا کرتے ہیں)یا سیاہ خضاب کرےکما فی المناوی والعزیزی والحفنی شروح الجامع الصغیر، یہ سب صورتیں مثلہ مومیں داخل ہیں اور سب حرام۔“ (فتاوی رضویہ،ج22، ص664، رضافاؤنڈیشن،لاھور)

2- وضو و غسل کے متعلق شریعت کا قاعدہ یہ ہے کہ جو چیزیں پانی کو جسم تک پہنچنے سے مانع ہوں ان کے جسم پر چپکے ہونے کی حالت میں وضو اور غسل نہیں ہوتا، کیونکہ وضو میں سر کے علاوہ باقی تینوں اعضائے وضو اور غسل میں پورے جسم کے ہر ہر بال اور ہر ہر رونگٹے پر پانی بہ جانا فرض ہے لہذا اگر مہندی و کلر وغیرہ ایسے ہیں کہ دھونے کے بعد بھی جسم پر انکی تہہ جم جاتی جس کی وجہ سے پانی بالوں تک نہیں پہنچتا تو وضو وغسل نہیں ہو گا البتہ اگر یہ مہندی و کلر وغیرہ ایسے نہیں ہیں جنکی تہہ جمتی ہو محض مہندی وغیرہ کا رنگ ہی ہے تو اب وضو و غسل ہو جائے گا۔ عموما مہندی اور دیگر کلر کی تہہ نہیں بنتی ہے۔

تبیین الحقائق میں ہے والخضاب إذا تجسد ويبس يمنع تمام الوضوء والغسل كذا في الوجيز ” ترجمہ : خضاب جب جرم دار ہو جائے (یعنی جسم پر اسکی تہہ جم جائے)  اور خشک ہو جائے تو وضو و غسل کے مکمل ہونے میں رکاوٹ بنے گا ایسے ہی وجیز میں ہے

(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي ,1/13)

ولا بد من زوال ما يمنع من وصول الماء للجسد كشمع وعجين” ترجمہ: اور ضروری ہے زائل کرنا اس چیز کو جو جسم تک  پانی کے پہنچنے  میں رکاوٹ بنے جیسے موم اور گوندھا ہو آٹا

(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح، صفحة 102)

فقہ العبادات ، وضو کے صحیح ہونے کی شرائط میں ہے ” زوال ما يمنع وصول الماء إلى البشرة لجرم الحائل، كشمع أو شحم وكذا طلاء الأظافر. أما الدسومة التي لا جرمية لها فلا مانع كدسومة الزيت وما شابهه ترجمہ : اس چیز کا زائل کرنا جو جسم تک پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ بنے حائل جرم(یعنی جسم و پانی کے درمیان ایک جسم والی رکاوٹ تہہ) کی وجہ سے جیسے موم اور چربی ایسے ہی ناخنوں کی پالش وغیرہ، بہر حال وہ چکناہٹ جسکا کوئی جسم نہیں ہوتا وہ مانع نہیں جیسے تیل اور اسکے مشابہ دیگر جیزوں کی چکناہٹ. (فقه العبادات على المذهب الحنفي، کتاب الطہارۃ ، الباب الثالث “الوضو” ،ص 24)

طحطاوی میں ہے:’’بقاء دسومۃ الزیت ونحوہ لا یمنع لعدم الحائل‘‘ ترجمہ: تیل کی چکناہٹ اور اس کی مثل دیگر اشیاء ( جو جِرم دار نہ ہوں، ان) کا باقی رہنا پانی کے جسم تک پہنچنے میں رکاوٹ نہ ہونے کی وجہ سے وضو سے مانع نہیں ۔‘‘

( حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الطھارۃ، فصل فی احکام الوضو، صفحہ 62، مطبوعہ  کراچی)

(والله تعالى اعلم بالصواب)

کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی

ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ

( مورخہ18مارچ 2022 بمطابق 14 شعبان المعظم1443ھ بروز جمعہ)

اپنا تبصرہ بھیجیں