غیر ضروری بالوں کو صاف کرنے کے لئے کریم،پاؤڈر اور اس طرح کی دیگر چیزوں کا استعمال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ جِلد کی بیماری کی وجہ سے ڈاکٹر نے ریزر(safety blade) کے بجائے بال صاف کرنے والی کریم کا بولا ہے، بغل اور زیرِ ناف صبح کریم سے بال صاف کیے غسل کرنے کے بعد شام کو کچھ بال جھڑ کر کپڑوں پر گرے ہوے تھے کیا حکم شرعی ہوگا۔

بسم الله الرحمن الرحيم

الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

غیر ضروری بالوں کو صاف کرنے کے لئے کریم،پاؤڈر اور اس طرح کی دیگر چیزوں کا استعمال جائز ہے کہ شریعت کو اصل مقصود صفائی ہے اور وہ کسی بھی جائز طریقے سے کی جا سکتی ہے البتہ بغل کے بال اکھاڑناافضل ہے۔بال اگر جھڑ کر کپڑوں یا بدن پر گر جائیں تو اس سے کپڑے ناپاک نہیں ہونگے۔

عالمگیری میں ہے:”و فی الابط یجوز الحلق و النتف اولی و یبتدی فی الحلق العانۃ من تحت السرۃ ولو عالج بالنورۃ فی العانۃ یجوز” ترجمہ:بغل کے بال مونڈنا جائز ہے اور افضل اکھیڑنا ہے اور زیر ناف کے بال کو ناف کے بالکل نیچے سے مونڈنا شروع کرے اور اگر زیر ناف بالوں کو نورہ سے صاف کیا تو بھی جائز ہے۔(فتاوی عالمگیری،جلد 5،کتاب الکراھیۃ،صفحہ 437،دار الکتب العلمیہ)

بہار شریعت میں ہے:”موئے زیر ناف استرے سے مونڈنا چاہیے اور اس کو ناف کے نیچے سے شروع کرنا چاہیے اور اگر مونڈنے کی جگہ ہرتال چونا یا اس زمانہ میں   بال اڑانے کا صابون چلا ہے، اس سے دور کرے یہ بھی جائز ہے، عورت کو یہ بال اکھیڑ ڈالنا سنت ہے۔(بہار شریعت،جلد 3،حصہ 16،صفحہ 584،مکتبۃ المدینہ)

اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”حلق و قصر و نتف و تنور یعنی مونڈنا، کترنا، اکھیڑنا، نورہ لگانا سب صورتیں جائز ہیں کہ مقصود اس موضع کا پاک کرنا ہے اور وہ سب طریقوں میں حاصل۔(فتاوی رضویہ،جلد 22،صفحہ 600،رضا فاؤنڈیشن)

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ : ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی بن محمد اسماعیل

ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ

( مورخہ 7 فروری، 2022 بمطابق 5 رجب المرجب،1443ھ بروز پیر)

اپنا تبصرہ بھیجیں