سورۃ البقرہ کی فضیلت

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ روایات میں سورہ بقرہ پڑھنے کے بے شمار فضائل وارد ہیں،جیسا کہ شیطان اس گھر میں داخل نہیں ہوتا جس گھر میں سورہ بقرہ کی تلاوت ہو تو کیا پوری سورہ بقرہ پڑھنے سے یہ  ساری فضیلتیں  حاصل ہوگی ،یا منتخب آیات جیسے آیت الکرسی اور آخری آیات پڑھنے سے بھی یہ فضیلت حاصل ہوگی۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب  اللھم  ھدایۃ الحق وا لصواب

              چند آیات پڑھنے سے سارے فضائل جو سورہ بقرہ کے متعلق وارد ہوئے ہیں وہ حاصل نہ ہونگے  ساری فضیلتوں کے حصول کے لیے مکمل سورت ہی پڑھنا ہی افضل عمل ہے  ،البتہ چند آیات پڑھنا بھی کثیر فضائل کا حامل ہے جیسا کہ احادیث میں آیا ہے ۔مرقاۃ المفاتیح میں اس حدیث پاک کے تحت ہے : وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ” «لَا تَجْعَلُوا بِيُوتَكُمْ مَقَابِرَ، إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنَ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ» “ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ کیونکہ شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جائے ۔

اس حدیث کی شرح میں  ملا علی قاری فرماتے ہیں:خصَّ سُورَةالْبَقَرَةِ بِذَلِكَ لِطُولِهَا وَكَثْرَةِ أَسْمَاءِ اللَّهِ – تَعَالَى – وَالْأَحْكَامِ فِيهَا، وَقَدْ قِيلَ: فِيهَا أَلْفُ أَمْرٍ وَأَلْفُ نَهْيٍ وَأَلْفُ حُكْمٍ وَأَلْفُ خَبَرٍ:سورۃ البقرہ  کو اس ( فضیلت ) کے ساتھ خاص کیا گیا سورۃ البقرہ کی  طوالت کی  وجہ سے، اور اس میں  کثیر اسماء الہی اور احکام الہی ہونے کی وجہ سے،بعض علماء نے فرمایا کہ سورۃ البقرہ میں ایک ہزار امر ہیں ایک ہزار نہی ہیں ایک ہزار حکم اور ایک ہزار خبریں ہیں۔                       (مرقاۃ المفاتیح ،جلد 4،صفحہ 1460،دار الفکر بیروت)

تفسیر روح البیان میں ہے :و اطول الآی افضلھا لکثرۃ الحروف و ان اقتصر علی قصار الآی عند فتورہ ادرک الفضل ۔ترجمہ: کثرت حروف کی وجہ سے  طویل آیات کا پڑھنا افضل ہے اور اگر کوئی سستی کے وقت چند آیات پر اقتصار کر لے  تو بھی فضیلت پالے گا۔

آیت الکرسی اور سورہ بقرہ کی آخری دو آیات پڑھنے سے بھی کفایت کرے گا جیسا کہ  بخاری شریف کی حدیث میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَرَأَ بِالْآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ البَقَرَةِ فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ»ترجمہ :جو شخص سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں رات میں پڑھے گا وہ اسے کفایت کریں گی ۔             (صحیح بخاری ،جلد 6،صفحہ 188،دار طوق النجاۃ)

اس کی شر ح میں ہے : من قراھا کلھا من کفایۃ اللہ لہ و حرزہ و حمایتہ من الشیطان و غیرہ و عظیم ما ید خر لہ من ثوابھا ۔ جو سورۃ البقرہ مکمل پڑھتا ہے وہ اللہ پاک کی کفایت و حفاظت  میں  ہوتا ہے اور شیطان و غیرہ سے  محفوظ ہوجاتا ہے ،اور اس کے لیے اس کا اجر عظیم ہے  ۔      (شرح صحیح بخاری لابن بطال  ،جلد 10،صفحہ 247،بیروت)

اس حدیث پاک کی شرح میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں ”كَفَتَاهُ مِنْ قِيَامِ اللَّيْلِ وَقِيلَ مِنَ الشَّيْطَانِ وَقِيلَ مِنَ الْآفَاتِ”سورہ بقرہ کی دو آیتیں کفایت کرنے سے مراد یہ ہے کہ دو آیتیں اس کے اس رات کے قیام کے قائم مقام ہوجائیں گی ،یا اس رات اسے شیطان سے محفوظ رکھیں گی ،ایک قول یہ بھی ہے کہ اس رات میں نازل ہونے والی آفات سے بچائیں گی ۔    (فتح الباری ،جلد 9،صفحہ 56،بیروت)

ترمذی شریف میں ہے  عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْه وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ كِتَابًا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفَيْ عَامٍ، أَنْزَلَ مِنْهُ آيَتَيْنِ خَتَمَ بِهِمَا سُورَةَ الْبَقَرَةِ، وَلَا يُقْرَآنِ فِي دَارٍ ثَلَاثَ لَيَالٍ فَيَقْرَبُهَا شَيْطَانٌ»حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک نے زمین و آسمان کو پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب لکھی پھر اس میں سے سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں نازل فرمائیں ،جس گھر میں تین راتیں ان دو آیتوں کو پڑھا جائے گا شیطان اس گھر کے قریب نہ آئے گا۔    ( سنن الترمذی ،جلد5،صفحہ 159،مصر)

شعب الایمان کی روایت میں ہے حضور صلی اللہ علیہ سلم نے ارشاد فرمایا : وَمَنْ قَرَأَهَا حِينَ يَأْخُذُ مَضْجَعَهُ أَمَّنَهُ اللهُ عَلَى دَارِهِ وَدَارِ جَارِهِ وَالدُوَيْرَاتِ حَوْلَهُ “ترجمہ:جو شخص  سوتے وقت آیت الکرسی پڑھتا ہے اللہ تعالی اس کے گھر اور اس کے پڑوسی کے گھر اور اس کے آس پاس کے گھروں کو امان دے دیتا ہے ۔ (شعب الایمان ،جلد 4،صفحہ 56،مکتبۃ الرشد الریاض )

کتبہ: محمدصابر مدنی

نظر ثانی: مفتی انس رضا مدنی        

اپنا تبصرہ بھیجیں