تاریخی چرچ یا گردوارہ وغیرہ پر گھومنے کے لئے جانا

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ غیر مسلموں کے تاریخی مقامات مثلاً تاریخی چرچ یا گردوارہ وغیرہ پر گھومنے کے لئے جانا اور وہاں پر غیر مسلم مثلاًسکھوں کا پیلا رومال سرپر باندھنا کیساہے؟ دل میں نیت صرف گھومنا ہو لیکن وہاں پر انٹری کے وقت سر پر وہ رومال باندھنا ضروری ہے؟

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت کا حکم یہ ہے کہ مسلم سیاحوں کو غیر مسلموں کے دینی تاریخی مقامات جیسے چرچ (عیسائیوں کی عبادت گاہ)یا گردوارہ (سکھوں  کی عبادت گاہ ) وغیرہ پر جانا مکروہ تحریمی، ناجائز و گناہ ہے اس لئے کہ یہ جگہیں کئی طرح کے شرعی فسادات سے بھر پور اور شیطانی کاموں سے مملو ہوتی ہیں، حتی کہ مسلمان کو تو حکم ہے کہ اگر کفار کے محلے سے گزے  تو جلد نکل جائے یہ محل لعنت ہے جب ان کے محلے کا یہ حکم ہے تو پھر انکے وہ مقامات کے جہاں انکے مذہبی امور وغیرہ ادا کیے جاتے ہوں ان کا حکم تو اور سخت ہوجائے گا،  دوسرا وہاں پر انٹری کے لئے سرڈھانپنا یہ اس مقام کی تعظیم ہے جو اور زیادہ حرام ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

في التتارخانية يكره للمسلم الدخول في البيعة والكنيسة، وإنما يكره من حيث إنه مجمع الشياطين لا من حيث إنه ليس له حق الدخول والظاهر أنها تحريمية؛ لأنها المرادة عند إطلاقهم، وقد أفتيت بتعزير مسلم لازم الكنيسة مع اليهود.

ترجمہ: تتارخانیہ میں ہے کہ گرجا اور کلیسہ میں مسلمان کا داخل ہونا مکروہ ہے اور یہاں پر کراہت شیاطین کی آمجگاہ ہونے کی وجہ سے ہے نہ یہ کہ مسلمان کو یہاں داخل ہونے کا حق ہی نہیں اور ظاہر ہے کہ یہ مکروہ تحریمی ہے کیونکہ فقہاء کے نزدیک مطلق مکروہ سے مکروہ تحریمی مراد ہوتا ہے اور میں نے اس مسلمان کو تعزیرا سزا دینے کا فتوی دیا ہے کہ جو مسلسل یہود کے ساتھ گرجا میں رہتا ہے۔

(بحر الرائق، کتاب الوکالۃ، باب الوکالۃ بالخصومۃ والقبض، جلد7، صفحہ214، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

فتاوی رضویہ شریف میں ہے:

 مسلمان کو حکم ہے راہ چلتاہوا کفار کے محلہ سے گزرے تو جلد نکل جائے کہ وہ محل لعنت ہے نہ کہ خاص ان کی عبادت کی جگہ، جس وقت وہ غیر خدا کو پوج رہے ہوں قطعا اس وقت لعنت اترتی ہے اور بلا شبہ اس میں تماشائیوں کا بھی حصہ ہے۔

(فتاوی رضویہ، جلد21، صفحہ169۔171، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطا)

فتاوی رضویہ شریف میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ کافروں اور فاسقوں کے لباس سے مشابہت کے احکام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

لباس کی وضع کالحاظ رکھا جائے کہ کافروں کی شکل وصورت اورفاسقوں کے طرزو طریقے پر نہ ہو اور اس کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ ان کا مذہبی شعار ہو جیسے ہندوؤں کا زنار اور عیسائیوں کی خصوصی ٹوپی کہ _ہیٹ_ کہتے ہیں۔ پس ان کا استعمال کفر ہے۔ اور اگر ان کے مذہب کا شعار تو نہیں لیکن ان کی قوم کا خصوصی لباس ہے تو اس صورت میں بھی اس کا استعمال ممنوع (ناجائز ہے) چنانچہ حدیث صحیح میں فرمایا: جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ اسی میں شمار ہے

(فتاوی رضویہ، جلد22، صفحہ187۔190، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطا)

واللّٰه تعالی اعلم بالصواب۔

کتبه: ندیم عطاری مدنی حنفی۔

نظر ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری۔

اپنا تبصرہ بھیجیں