فرضوں کی تیسری اور چوتھی رکعت  میں سورت پڑھنا ضروری ہے یا نہیں

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ فرضوں کی تیسری اور چوتھی رکعت  میں سورت پڑھنا ضروری ہے یا نہیں؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایةالحق والصواب

  فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۃ پڑھنا ضروری نہیں بلکہ تنہا فاتحہ پڑھنا بھی واجب نہیں بلکہ افضل ہے۔ ہاں منفرد یعنی تنہا فرض پڑھنے والے کے لیے افضل ہے کہ وہ فاتحہ کے ساتھ سورۃ بھی پڑھ لے،امام کے لیے درست نہیں۔

صحیح بخاری میں ہے:”ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقرأ فی الظھر فی الأولیین بأم الکتاب، وسورتین، وفی الرکعتین الأخریین بأم الکتاب“بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دورکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دوسورتیں تلاوت فرماتے تھے اور آخری دورکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ تلاوت فرماتے تھے۔

(صحیح بخاری ،کتاب الاذان ،باب یقرأ فی الاخریین،ج1،ص107، مطبوعہ کراچی )

  اورفرض کی آخری دورکعتوں میں کچھ بھی نہ پڑھنے کے بارے میں  مؤطاامام مالک میں ہے:”أن عبد اللہ بن مسعود کان لا یقرأ خلف الامام فیما جھر فیہ، وفیما یخافت فیہ فی الأولیین، ولا فی الأخریین، واذا صلی وحدہ قرأ فی الأولیین بفاتحة الکتاب وسورة، ولم یقرأ فی الأخریین شیئا“ترجمہ: بے شک عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے جہری اور خفی دونوں نمازوںمیں پہلی دو رکعتوں اورآخری دورکعتوں میں قراء ت نہیں کرتے تھے اور جب تنہا نماز پڑھتے تو پہلی دورکعتوں میں سورہ فاتحہ اورساتھ میں سورت کی قراء ت کرتے تھے اورآخری دورکعتوں میں کچھ نہیں پڑھتے تھے ۔

(مؤطا امام مالک ،باب افتتاح الصلاة،ص62،مطبوعہ  المکتبة العلمیہ)

مصنف عبد الزراق میں ہے:”عن عبید اللہ بن أبی رافع قال کان یعنی علیا یقرأ فی الأولیین من الظھر والعصر بأم القرآن وسورة، ولا یقرأ فی الأخریین“ترجمہ: عبید اللہ بن ابی رافع رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ظہراور عصر کی پہلی دورکعت میں سورہ فاتحہ اور ساتھ میں سورت کی قراء ت کرتے تھے اور آخری رکعتوں میں کچھ نہیں پڑھتے تھے ۔

(مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلاہ،باب کیف القراء ة فی الصلاة،ج2،ص100،مطبوعہ  المکتب الاسلامی ،بیروت)

  مصنف عبد الرزاق میں حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:”ما قرأ علقمة فی الرکعتین الأخریین حرفاقط“ترجمہ: حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ( فرض کی )آخری دو رکعتوں میں ایک حرف بھی نہ پڑھتے تھے۔

(مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلاہ،باب کیف القراء ة فی الصلاة،ج2،ص100،مطبوعہ  المکتب الاسلامی ،بیروت)

اورفرض کی تیسری اورچوتھی رکعت میں تسبیح پڑھنے کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:” یقرأ فی الأولیین، ویسبح فی الأخریین“ترجمہ : کہ (نمازی )پہلی دورکعتوں میں قراء ت کرے اورآخری دورکعتوں میں تسبیح کرے ۔

(مصنف ابن ابی شیبة،کتاب الصلاہ،من کان یقول یسبح فی الاخریین،ج1،ص327، مطبوعہ ریاض)

درمختار میں ہے:”واکتفی المفترض فیما بعد الأولیین بالفاتحة فانھاسنۃ علی الظاھر ولو زاد لابأس بہ (وھو مخیر بین قراء ة) الفاتحة(وتسبیح ثلاثا) وسکوت قدرھا“ترجمہ:چاررکعت فرض پڑھنے والے کے لیے پہلی دو رکعت کے بعدسورہ فاتحہ پڑھناکافی ہےاوریہ بظاہرسنت بھی ہےاوراگرسورہ فاتحہ کے ساتھ سورت بھی ملالی توکوئی حرج نہیں اورنمازی کوسورہ فاتحہ پڑھنے اور تین مرتبہ تسبیح کہنے اوراس مقدار چپ رہنے میں اختیار ہے۔

(درمختار،کتاب الصلاۃ،ج02،ص270،مطبوعہ کوئٹہ)

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ فواد علی

نظر ثانی مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ