رفع یدین کے متعلق احادیث کا مطلب

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ رفع یدین کے متعلق جو احادیث ہیں ان کا کیا مطلب ہے ؟رفع یدین کرنا کیسا ہے ؟ ٖغوث پاک نے بھی رفع یدین کیا ہے ؟

الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

نماز میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین کرنا ایسا عمل ہے جو ابتدائے اسلام میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا لیکن بعد میں چھوڑ دیا کہ ہمیشہ رفع یدین کرنا ثابت نہیں یہی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے لہذا احناف نے ترک رفع یدین والی احادیث کو اور دیگر مجتہدین نے اثبات رفع یدین والی احادیث کو لیا اب احناف کے نزدیک نماز میں رفع یدین کرنا مکروہ اور اثبات رفع یدین والی احادیث منسوخ ہیں اور دیگر ائمہ مجتہدین کے نزدیک رفع یدین کرنا سنت اور ان کے مقلدین کے لیے اپنے امام کی اتباع میں جائز و مشروع اور سنت ہے اسی طرح غوثِ پاک رضی اللہ تعالی عنہ امام احمد بن حنبل کے مقلد تھے تو وہ اپنے امام کی اتباع میں رفع یدین کرتے تھے ۔

1۔۔ سنن ابو داؤد میں ہے “حدّثنا إسحاق، حدثنا ابن إدریس قال: سمعت یزید بن أبي زیاد عن ابن أبي لیلی عن البراء قال: رأیت رسول الله صلی الله علیه وسلم رفع یدیه حین استقبل الصلاة، حتی رأیت إبهامیه قریبًا من أذنیه ثم لم یرفعهما”.

ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جس وقت نماز شروع فرمائی تھی، حتی کہ میں نے دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو دونوں کانوں کے قریب پہنچایا، اس کے بعد پھر اخیر نماز تک دونوں ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔

(سنن أبوداؤد، جلد 2 صفحہ 66، برقم: 750 دار الرسالۃ العالمیہ)

2۔۔۔ جامع ترمذی میں ہے “عن علقمة قال: قال عبد الله بن مسعود ألا أصلي بکم صلاة رسول الله صلی الله علیه وسلم، فصلی فلم یرفع یدیه إلا في أول مرة”.

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ تم آگاہ ہوجاؤ! بے شک میں تم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھاکر دکھاتا ہوں، یہ کہہ کر نماز پڑھائی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف اول تکبیر میں اٹھایا پھر پوری نماز میں نہیں اٹھایا۔

(سنن ترمذی، ابواب الصلاة، باب ماجاء ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لم یرفع الا فی اول مرۃ، صفحہ 83 دارالکتب العلمیہ بیروت)

3۔۔۔ شرح معانی الآثار میں ہے  “عن عقلمة عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی الله علیه وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود”.

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے۔

(شرح معاني الآثار، للطحاوي جلد 1 صفحہ 224 ، رقم: 1349 عالم الکتب)

4۔۔۔ شرح معانی الآثار میں ہے “عن المغیرة قال: قلت لإبراهيم: حدیث وائل أنه رأی النبي صلی الله علیه وسلم یرفع یدیه إذا افتتح الصلاة وإذا رکع وإذا رفع رأسه من الرکوع، فقال:إن کان وائل رآه مرةً یفعل ذلك فقد رآه عبد الله خمسین مرةً لایفعل ذلك”.  

ترجمہ: حضرت مغیرہ نے حضرت امام ابراہیم نخعی سے حضرت وائل ابن حجرؒ کی حدیث ذکر فرمائی کہ حضرت وائل بن حجر سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے جب نماز شروع فرماتے اور جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس پر ابراہیم نخعی نے مغیرہ سے کہا کہ اگر وائل بن حجر نے حضور ﷺ کو اس طرح رفع یدین کرتے ہوئے ایک مرتبہ دیکھا ہے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضور کو پچاس مرتبہ رفع یدین نہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

(شرح معاني الآثار، للطحاوي، باب التکبیر عندالرکوع ،جلد 1، صفحہ 224، مطبوعہ عالم الکتب)

5۔۔۔ شرح معانی الآثار میں ہےحضرت مجاهد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :

“ما رایت ابن عمر، یرفع یدیه إلا في أول ما یفتتح۔

فهذا ابن عمر قد رأی النبي صلی  الله علیه وسلم یرفع، ثمَّ قد ترک هو الرفع بعد النبي صلی  الله علیه وسلم فلا یکون ذلك إلا وقد ثبت عنده نسخ ما قدرأی النبي صلی الله علیه و سلم فعله و قامت الحجة علیه بذلك”

میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی  اللہ عنھما کو دیکھا کہ وہ نماز کے شروع کے علاوہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔

پس یہ ابن عمر رضی اللہ عنھما ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہاتھ اٹھاتے دیکھا پھر اسی ہاتھ اٹھانے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ترک کر دیا، تو یہ نہیں ہوا ہوگا مگر اس وقت کہ ان کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے اس (رفع یدین) کا منسوخ ہونا ثانت ہوچکا ہوگا اور (ان کے نزدیک) رفع یدین کے منسوخ ہونے پر دلیل قائم ہوچکی ہوگی۔

(شرح معانی الآثار، باب التکبیر للرکوع و التکبیر للسجود، جلد 1، صفحہ 225، مطبوعہ عالم الکتب)

6۔۔۔ سنن الکبریٰ للبیھقی میں ہے “عن علقمة عن عبد الله بن مسعود قال: صلیت خلف النبي صلی الله علیه وسلم، وأبي بکر وعمرفلم یرفعوا أیدیهم إلا عند افتتاح الصلاة.”

ترجمہ: حضرت علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابن مسعودؓ نے فرمایا: میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اور حضرت ابوبکر وعمر کے پیچھے نماز پڑھی ہے ان میں سے کسی نے اپنے ہاتھوں کو تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ کسی اور تکبیر میں نہیں اٹھایا۔

 (السنن الکبری للبیهقي جلد 2 صفحہ 393 رقم 2586 دارالفکر بیروت) 

7۔۔۔ شرح معانی الآثار میں ہے “عن مجاهد قال: صلّیت خلف ابن عمر فلم یکن یرفع یدیه إلا في التکبیرة الأولی من الصلاة، فهذا ابن عمر قد رأی النبي صلی الله علیه وسلم یرفع، ثمَّ قد ترک هو الرفع بعد النبي صلی الله علیه وسلم فلایکون ذلك إلا وقد ثبت عنده نسخ ما قدرأی النبي صلی الله علیه وسلم فعله وقامت الحجة علیه بذلك”.

ترجمہ: حضرت امام مجاہد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ دونوں ہاتھوں کو نماز کی صرف پہلی تکبیر میں اٹھاتے تھے، اس کے علاوہ کسی اور تکبیر میں نہیں اٹھاتے تھے، تو یہ حضرت ابن عمر ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا اور پھر انہوں نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ہاتھ اٹھانا ترک کردیا، اور ان کا ہاتھ اٹھانا ترک کرنا ہو نہیں سکتا، الاّ یہ کہ ان کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رفع یدین کا عمل یقینا منسوخ ہوچکا ہے، اور ان کے نزدیک رفع یدین کے منسوخ ہونے پر حجت قائم ہوچکی ہے۔

(طحاوي شریف جلد 1 صفحہ 292)

علامہ بدر الدین محمود عینی حنفی (المتوفى: 855 ھ) ۔۔ البنایہ شرح ھدایہ میں لکھتے ہیں :هو ما نقله البعض «أن ابن الزبير رأى رجلا يرفع يديه في الصلاة عند الركوع وعند رفع الرأس من الركوع فقال له: لا تفعل فإن هذا شيء فعله رسول الله – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – ثم تركه»

ترجمہ: عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو رکوع کرتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرتے دیکھا تو آپ نے اسے فرمایا: ایسا نہ کرو۔ کیونکہ یہ ایسا عمل ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے پہلے کیا اور چھوڑ دیا۔

( البنایۃ ج 2 ص 258 دارالکتب العلمیہ بیروت )

ردالمحتار میں ہے’’(قوله إلا في سبع ) أشار إلى أنه لا يرفع عند تكبيرات الانتقالات، خلافا للشافعي وأحمد، فيكره عندنا ولا يفسد الصلاة‘‘۔

صاحبِ درمختارنے اپنے قول ’’قوله إلا في سبع‘‘ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ تکبیراتِ انتقالیہ کے وقت ہاتھ نہیں اٹھائے جائیں گے، اس مسئلہ میں امام شافعی اور امام احمد کا اختلاف ہے، پس ہاتھ اٹھانا ہمارے نزدیک مکروہ ہے، اور نماز فاسد نہیں ہوتی۔

(رد المحتار على الدر المختار: كتاب الصلاة، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها جلد 1 صفحہ 506 دارالفکر بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے“واما رفع الیدین عند التکبیر، فلیس بسنۃ فی الفرائض عندنا الا فی تکبیرۃ الافتتاح”

اور بہرحال فرائض میں تکبیر کے وقت رفع الیدین (یعنی دونوں ہاتھوں کو اٹھانا) ہمارے نزدیک سنت نہیں ہے مگر صرف تکبیرِ افتتاح (یعنی تکبیرِ تحریمہ) میں۔

(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، جلد 1، صفحہ 484 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: رکوع وغیرہ میں رفع یدین ہمارے ائمہ کرام رضی ﷲ تعالٰی عنہم کے نزدیك منسوخ ہوچکا ہے اور منسوخ پر عمل نامشروع ، تو اس میں متابعت نہیں ۔

(فتاوی رضویہ جلد 6 صفحہ 408 رضا فاؤنڈیشن)

دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں“رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے ہرگزکسی حدیث میں ثابت نہیں کہ رسول ﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم نے ہمیشہ رفع یدین فرمایا بلکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس کا خلاف ثابت ہے۔نہ احادیث میں اسکی مدّت مذکور ۔ ہاں حدیثیں اس کے فعل و ترك دونوں میں وارد ہیں،

ہمارے ائمہ کرام رضوان اﷲ تعالی علیہم اجمعین نے احادیث ترك پر عمل فرمایا حنفیہ کو ان کی تقلید چاہئے، شافعیہ وغیرہم (حنابلہ) اپنے ائمہ رحمہم اﷲ تعالٰی کی پیروی کریں کوئی محلِ نزاع نہیں، ہاں وہ حضرات تقلید ِ ائمہ دین کو شرك و حرام جانتے اور با آنکہ علمائے مقلدین کاکلام سمجھنے کی لیاقت نصیب اعداء اپنے لئے منصبِ اجتہاد مانتے اور خواہی نخواہی تفریق کلمہ مسلمین و اثارت فتنہ بین المومنین کرنا چاہتے بلکہ اسی کو اپنا ذریعہ شہرت و ناموری سمجھتے ہیں اُن کے راستے سے مسلمانوں کو بہت دور رہنا چاہئے ۔”

(فتاوی رضویہ جلد 6 صفحہ 155٫156 رضا فاؤنڈیشن)

کتاب مستطاب بہجۃالاسرار کا ترجمہ امام الاولیاء میں ہے: “آپ دعامانگتے ہیں کہ حق سبحانہ وتعالی ان کو ازروۓ اعتقادوعمل امام احمد کے مذہب پرخاتمہ فرمائے اور اس پر حشر فرمائے آپ فرماتے ہیں: قال الإمام أبو عبدالله أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني وأماتناعلى مذهبه أصلاً وفرحا وحشرنافی زمرته

اس سے معلوم ہوا کہ آپ حنبلی تھے ۔اکابر علماء نے اس امر کا اقرار کیا ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی حنبلی تھے۔”

(امام الاولیاء صفحہ 79 مکتبہ اعلیٰ حضرت)

والله اعلم ورسوله عزوجل و صلى الله عليه وسلم

كتبه: محمد نثار عطاری

21 ربیع الاول 1443ھ بمطابق 28 اکتوبر 2021ء

 نظر ثانی۔ابواحمد مفتی محمد انس رضا عطاری