مدت معلوم نہ ہو تو قصر پڑھی جائے گی یا نہیں؟

سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں اپنے گھر سے آٹھ سو کلومیٹر دور ہوں ٹریننگ پر یہ پتا نہیں کہ یہاں کتنے دن رکنا ہے میں اپنی نماز میں قصر کروں گا یا پوری پڑھوں گا ؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللہم ھدایۃ الحق والصواب

پوچھی گئی صور ت میں آپ جن کے تحت ٹریننگ کررہے ہیں  ان سے معلوم کرلیں  کتنے دن  کی ٹریننگ ہے ،اگر وہ 15 دن یا اس سے زائد کا کہتےہیں تو آپ اس صورت میں  نماز  پوری ادا کریں گے ورنہ قصر کریں گے یعنی چار رکعت والی نماز میں 2  رکعت پڑھیں گے،اور عموما منظم اداروں وقت بتادیتے ہیں،بالفرض اگر   پتا نہ چل سکے  اور آپکو اختیار بھی نہیں تو آپ مسافر ہیں  کیونکہ آٹھ سو کلومیٹر تین دن کی مسافت یعنی 92 کلومیٹر سے زیادہ ہے ۔

درمختار  میں ہے : والمعتبر نية المتبوع لأنه الأصل لا التابع كامرأة۔۔۔واجیر  ترجمہ متبوع کی نیت کا اعتبار ہے کیونکہ وہ اصل ہے  نہ کہ تابع کی  جیساکہ عورت اورملازم  ۔

(الدر المختار مع رد المحتار2 / 133ملتقطامطبوعہ دار الفكر-بيروت)

ردالمحتار میں ہے:وكذا ينبغي أن يكون حكم كل تابع يسأل متبوعه فإن أخبره عمل بخبره وإلا عمل بالأصل الذي كان عليه من إقامة وسفر حتى يتحقق خلافه: اسی طرح مناسب ہے کہ ہر تابع  کا حکم ہو کہ وہ اپنے مَتْبُوع سے سوال کرے، وہ جو جواب دے اُس کے مطابق  عمل کرے،ورنہ  وہ اس  پر عمل کرے جو اصل حالت ہے اقامت اور سفر میں یہاں تک کہ اس کے خلاف ثابت ہوجائے۔

( الدر المختار مع رد المحتار2 / 334مطبوعہ دار الفكر-بيروت)

بہار شریعت میں ہے:مسافر اگر اپنے ارادہ میں مستقل نہ ہو تو پندرہ دن کی نیت سے مقیم نہ ہوگا، مثلاً عورت جس کا مہر معجل شوہر کے ذمّہ  باقی نہ ہو کہ شوہر کی تابع ہے اس کی اپنی نیت بیکار ہے اور نوکر کہ یہ اپنے آقا کا تابع ہے۔

مزید اسی  میں ہے: ان سب(جو تابع ہیں ) کی اپنی نیت بے کار ہے بلکہ جن کے تابع ہیں ان کی نیتوں کا اعتبار ہے ان کی نیت اقامت کی ہے تو تابع بھی مقیم ہیں ان کی نیت اقامت کی نہیں تو یہ بھی مسافر ہیں۔تابع کو چاہیے کہ متبوع سے سوال کرے وہ جو کہے اس کے بموجب عمل کرے اور اگر اس نے کچھ نہ بتایا تو دیکھے کہ مقیم ہے یا مسافر اگر مقیم ہے تو اپنے کو مقیم سمجھے اور مسافر ہے تو مسافر اور یہ بھی نہ معلوم، تو تین دن کی راہ طے کرنے کے بعد قصر کرے اس سے پہلے پوری پڑھے۔

(بہار شریعت ج01ص746 /745مکتبۃ المدینہ)

امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ  فرماتےہیں :نوکر کی اپنی نیت معتبر نہ ہونی بلکہ نیت آقا کا تابع ہونا اُس حالت میں ہے کہ آقا کے ساتھ ہو ورنہ خود اس کی نیت معتبر ہے ۔

(فتاوی رضویہ ج08ص259 مطبوعہ رضافاؤنڈیشن لاہور )

 وقار الفتاوی میں ہے :جو شخص اپنے اختیار سے نیت کرسکتا ہے وہ اپنی نیت سے اقامت کی نیت کی کرسکتاہے  تو وہ اپنی نیت اقامت سے مقیم ہوجائے گا جو اپنے اختیار سے اقامت نہ کرسکے وہ اپنی اقامت کی نیت سے مقیم نہیں ہوگا ۔

(وقارالفتاوی ج02ص140 مطبوعہ :بزم وقارالدین )

مفتی اہلسنت مفتی محمد قاسم قادری صاحب فرماتے ہیں : یہ یاد رہے کہ سفر سے مراد تین دن کی مسافت یعنی ساڑھے ستاون میل یعنی بانوے کلو میٹر ہے۔

(صراط الجنان 01ص294 مکتبۃ المدینہ )

واللہ ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وآلہ سلم

کتبہ:احساب احمد عطاری بن حضور بخش

نظر ثانی :قبلہ مفتی ابوحمد محمد انس قادری صاحب