کیافر ما تے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں ہم دودھ بیچنے والے کو ایک ہفتے کے ایڈوانس میں پیسے د ے دیتے ہیں ،پھر اس رقم کے عوض ایک ہفتے تک دودھ خریدتے رہتے ہیں ،اور ایڈوانس میں دی ہوئی رقم سے کٹوتی ہوتی رہتی ہے کیا اسطرح رقم دینا جائز ہے؟
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب
پوچھی گئی صورت میں آپکا دودھ بیچنے والے کو اسطرح ایڈوانس رقم دیکر ہفتے بھر دودھ لیتے رہنا جائزنہیں ۔کیونکہ آپ لوگوں کا اس طرح رقم دکاندار کو دینا یہ قرض ہے،قرض دیتےوقت لفظ قرض ضروری بھی نہیں ہوتا،اور ہر وہ قرض جس پر کوئی نفع ملے وہ سود ہے ، یہاں جو آپ کو نفع مل رہا ہے وہ یہ ہےکہ دکاندار کے پاس آپکی رقم محفوظ ہے اور حاجت کے وقت لیتے رہتے ہیں دودھ خریدنے کی صورت میں،اوراگر ہلاک ہوجائے تو اسکا بھی وہ ذمہ دار ہے ۔
حدیث پاک میں حضور جان عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض پر نفعے کو سود فرمایا “ان کل قرض جر منفعۃ فھو ربا یعنی “ہر وہ قرض جس پر نفع ہو وہ سود ہے ۔ جیساکہ تبیین الحقائق ،ہدایہ،درمختار ، وغیرہا کتب معتبرہ کے کتاب الکراہیت میں اسکی تصریح موجود ہے ۔
واللفظ فی البحر : ومن وضع عند بقال درهما يأخذ منه ما شاء كره له ذلك ؛ لأنه إذا ملكه الدرهم فقد أقرضه إياه وقد شرط أن يأخذ منه من القبول وغيرها ما شاء وله في ذلك نفع بقاء الدرهم وكفايته للحاجات ولو كان في يده لخرج من ساعته ولم يبق فصار في معنى قرض جر نفعا وهو منهي عنه ‘ یعنی “اگرکوئی دکاندارکےپاس درہم رکھےکہ اسے جو چاہے لیتا رہے یہ مکروہ تحریمی ہے کیونکہ یہ اسکا درہم دینا بطور قرض کے ہے او ر اس شرط پر دیا ہے کہ وہ اسے سبزی وغیرہ جو چاہے لیتا رہےگا ۔اس میں اسكے لئےنفع ہے کہ درہم کی حفاظت ہے اور اسے ضروریات کا پورا ہونا ہے ،اگر اپنے پاس ہوتا تو کسی وقت بھی نکل سکتا تھا اور کچھ بھی نہ رہتا ، ، لہذا یہ اس قرض کے معنی میں ہےجس میں نفع ہو اور اسکی ممانعت آئی ہے، ۔
(بحرالرائق ج08ص373 مطبوعہ کوئٹہ)
امام اہلسنت سیدی اعلحضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:بقال کے پاس اس شرط پر روپیہ پیشگی رکھ دینا کہ حسب حاجت وقتا فوقتا چیزیں خریدتے رہیں گے صرف اسی نفع کی وجہ سے مکروہ فرمایا کما فی الکراہیۃ الہدایہ وغیرہا.
( فتاوی رضویہ شریف ج17ص603رضا فاونڈیشن)
واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
کتبہ:احسان احمد عطاری
نظر ثانی :قبلہ مفتی ابو احمد انس قادری صاحب