چلتے  ہیٹر کے سامنے نماز پڑھنا کیسا ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ   چلتے  ہیٹر کے سامنے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟

]الجواب بعون الملک الوھاب  اللھم  ھدایۃ الحق وا لصواب

  عموما سردیوں میں مسجدوں میں ہیٹر ہوتے ہیں ، جن میں ایک جالی لگی ہوتی اور وہ جالی آگ کی وجہ سے سرخ ہوجاتی ہے اسی سے گرمائش  آرہی ہوتی ہے  ،لیکن وہاں نہ تو انگارے ہوتےہیں اور نہ ہی بھڑکتی ہوئی آگ ، لہٰذا اگر نمازی کے سامنے اس قسم کا چلتا ہوا ہیٹر موجود ہو ،تو اس کے سامنے نماز پڑھنے میں کوئی کراہت نہیں ہے ، کیونکہ مجوسی یعنی آگ کی پوجا کرنے والے اِس کی پوجا نہیں کرتے،البتہ بھڑکتی آگ اوردہکتے انگارو ں کا تنور یاچولہا وغیرہ سامنےہو،تو یہ مکروہ ہے ،کیونکہ مجوسی اِن کی پوجا کرتےہیں اور اِن کے سامنے نماز پڑھنے میں مجوسیوں کے ساتھ مشابہت ہے۔

البنایہ فی شرح الھدایہ میں المحیط  کے حوالے سے منقول ہے” إن توجه إلى سراج أو قنديل أو شمع لا يكره،۔۔۔ خلاف ما إذا توجه إلى تنور أو كانون فيه نار تتوقد فإنه يكره؛ لأنه يشبه العبادة؛ لأنه فعل المجوس فإنهم لا يعبدون إلا نارا موقدة”ترجمہ اگر کسی نے چراغ،لالٹین یا شمع کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی،تو یہ مکروہ نہیں،بخلاف اس صورت میں کہ جب تنور یا ایسے چولہے کی طرف منہ کر کےنماز پڑھی ، جس میں آگ بھڑک رہی ہو،تو یہ مکروہ ہے کہ اس میں آگ کی عبادت سے مشابہت ہے ،کیونکہ یہ مجوسیوں کا فعل ہے،کہ وہ بھڑکتی  آگ ہی کوپو جتے ہیں ۔

                                                                                                      (البنایہ فی شرح الھدایہ ،جلد 2،صفحہ 459،مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ،بیروت )

رد المحتار میں ہے ” وَظَاهِرُهُ أَنَّ الْمُرَادَ بِالْمُوقدۃ الَّتِي لَهَا لَهَبٌ”ترجمہ :   اور ظاہر ہے کہ چولہے سے  مراد  وہ ہے جس کے لیے شعلہ ہو                                                       

(رد المحتار ،جلد 1،صفحہ 652،دار الفکر بیروت )

فتاوی رضویہ میں ہے”شمع یاچراغ یاقندیل یالیمپ یالالٹین یافانوس نمازمیں سامنے ہو،تو کراہت نہیں،کہ ان کی عبادت نہیں ہوتی اوربھڑکتی آگ اور دہکتے انگاروں کا تنور یابھٹی یاچولہا یاانگیٹھی سامنے ہوں ، تومکروہ کہ مجوس ان کوپوجتے ہیں۔

                                                                                       (فتاوی رضویہ،جلد24،صفحہ 619،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)