قربانی کے جانور کی عمر کتنی ہونی چاہیے ؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ قربانی کے جانور کی عمر کتنی ہونی چاہیے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

قربانی کے لیے اونٹ کی عمر کم از کم پانچ سال، گائے بھینس کی دو سال اور بکرے بکری کی عمر ایک سال ہونا ضروری ہے، لہذا اگر کسی جانور کی عمر اس سے کم ہو ،تو اس کی قربانی درست نہیں، سوائے دنبے یا بھیڑ کے چھ ماہ بچے کے، اس میں بھی اتنا بڑا ہونا ضروری ہے کہ اگر سال والے جانوروں میں ملایا جائے، تو سال بھر کا لگے، تو اس کی قربانی جائز ہے۔

صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’لا تذبحوا الا مسنۃ، الا ان یعسر علیکم، فتذبحوا جذعۃ من الضان‘‘ ترجمہ : تم صرف مسنہ (یعنی ایک سال کی بکری، دو سال کی گائے اور پانچ سالہ اونٹ) کی قربانی کرو، ہاں اگر تم کو دشوار ہو، تو دنبے یا بھیڑ کا چھ ماہہ بچہ ذبح کردو‘‘۔

(صحیح مسلم، کتاب الاضاحی، باب سن الاضحیہ، جلد 2، صفحہ 155،مطبوعہ کراچی)

    لفظ مسنہ کے تحت علامہ شرف الدین نووی و علامہ علی القاری علیہما الرحمۃ فرماتے ہیں:”واللفظ للنووی:’’قال العلماء: المسنۃ ھی الثنیۃ من کل شئی من الابل والبقر والغنم فما فوقھا‘‘ ترجمہ: علماء نے فرمایا: مسنہ سے مراد اونٹ، گائے اور بکری ہر ایک میں ثنی  یا اس سے بڑا ہونا ہے‘‘۔

(المنھاج شرح مسلم، کتاب الاضاحی، با ب سن الاضحیہ، جلد 13، صفحہ 117، مطبوعہ بیروت)

    ثنیہ کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ کاسانی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:’’والثني من الشاة والمعز ما تم له حول وطعن في السنة الثانية، ومن البقر ما تم له حولان وطعن في السنة الثالثة، ومن الابل ما تم له خمس سنين وطعن في السنة السادسة، وتقدير هذه الاسنان بما قلنا لمنع النقصان لا لمنع الزيادة، حتى لو ضحى باقل من ذلك سنا لا يجوز ولو ضحى باكثر من ذلك سنا يجوز ويكون افضل‘‘ ترجمہ : بکری اور بھیڑ میں ثنی اسے کہتے ہیں، جس کی عمر ایک سال پوری ہو گئی ہواور دوسرے میں داخل ہو چکی ہو، گائے میں وہ ہے جس کے دو سال پورے ہونے کے بعد تیسرے میں داخل ہو گئی ہو، یونہی وہ اونٹ جو پانچ سال کا ہونے کے بعدچھٹے میں لگ گیا ہو، ہمارا ان عمروں کو بیان کرنا اس سے کم عمر جانوروں کی قربانی کو منع کرنے کے لیے ہے، نہ کہ زیادہ عمر کی ممانعت کے لیے، حتی کہ اگر کسی نے بیان کردہ سے کم عمر جانور کو قربان کیا ،تو جائز نہیں اور اگر زیادہ عمر والے کی قربانی کی تو جائز، بلکہ افضل ہے‘‘۔

(بدائع الصنائع، کتاب التضحیہ، محل اقامۃ الواجب، جلد 4، صفحہ 206، مطبوعہ کوئٹہ)

    لہذا سال سے کم بکرے کی قربانی درست نہیں، برخلاف بھیڑ و دنبے کے۔ مبسوط سرخسی میں ہے:’’ ولا خلاف ان الجذع من المعز لا يجوز، وانما ذلك من الضان خاصة‘‘ ترجمہ : اس میں اختلاف نہیں کہ بکری کا چھ ماہہ بچہ قربان کرنا ،  جائز نہیں، (چھ ماہہ بچے کی اجازت) بھیڑ یا دنبے میں ہی ہے‘‘۔

     (مبسوط للسرخسی، کتاب الاضحیہ، جلد 12، صفحہ 13، مطبوعہ کوئٹہ)

    پھر بھیڑ یا دنبے میں بھی سال بھر کا دِکھنا ضروری ہے، چنانچہ محیط برہانی میں ہے:’’ الجذع من الضان اذا كان عظيما، ومعناه انه اذا اختلط مع المثان يظن الناظر اليه انه ثني‘‘ ترجمہ : بھیڑ، دنبے کا چھ ماہ بچہ بڑا ہو، اس سے مراد یہ ہے کہ جب اسے سال بھر والوں کے ساتھ ملا دیا جائے ،تو دیکھنے والا دوندا (سال بھر کا  ہی گمان کرے‘‘۔

(محیط برھانی، کتاب الاضحیۃ، فصل الخامس فی بیان ما یجوز فی الضحایا وما لا یجوز، جلد 6، صفحہ 478،مطبوعہ  کوئٹہ)

بہار شریعت میں قربانی کے جانوروں کی عمر کے بارے میں فرمایا۔۔

کہ عمر پورے ایک سال کی ہونا ضروری ہے، اگر ایک دن بھی کم ہو گا ،تو اس کی قربانی شرعاً جائز نہ ہو گی۔‘‘

زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے۔ ہاں  دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہ بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں  سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اوس کی قربانی جائز ہے۔ (درمختار)

(بہار شریعت ج٣ ح پندرہ ص ٣۴٢ )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب ۔؛ مولانا فرمان رضا مدنی

نظر ثانی۔: ابو احمد مولانا مفتی انس قادری مدنی