قربانی کے جانور کی کھال بیچنا، سری پائے یا گوشت فروخت کرنا

علمائے دین متین سے التجا ہے کہ اس بارے میں ارشاد فرمائیں کہ اپنے قربانی کے جانور کی کھال بیچنا کیسا ہے؟ یونہی سری پائے یا گوشت فروخت کرنا کیسا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اپنی قربانی کی کھال اگر اس نیت سے پیچی کہ وہ رقم اپنے یا اوپر  استعمال کرے گا تو یوں بیچنا بھی ناجائز ہے اور یہ رقم اس کے حق میں مالِ خبیث ہے اور اس کا صدقہ کرنا واجب ہے لہذا کسی شرعی فقیر کو وہ رقم دے دے اور اگر کسی کارِخیر کی نیت سے بیچی تو یہ بیچنا جائز ہے اور یہی حکم قربانی کے گوشت اور سری پائے کا بھی ہے.

حدیث مبارکہ میں ہے:من باع جلد اضحیۃ فلا اضحیۃ لہ۔رواہ الحاکم

جس نے قربانی کی کھال فروخت کی تواس کی قربانی نہ ہوئی۔

(المستدرك للحاکم کتاب التفسیر ج2 ص 390 دارالفکر بیروت)

“الفتاوی الھندیۃ”میں ہے: وَلَا يَبِيعُهُ بِالدَّرَاهِمِ لِيُنْفِقَ الدَّرَاهِمَ عَلَى نَفْسِهِ وَعِيَالِهِ واللَّحْمُ بِمَنْزِلَةِ الْجِلْدِ فِي الصَّحِيحِ حَتَّى لَا يَبِيعَهُ بِمَا لَا يُنْتَفَعُ بِهِ إلَّا بَعْدَ الِاسْتِهْلَاكِ.

وَلَوْ بَاعَهَا بِالدَّرَاهِمِ لِيَتَصَدَّقَ بِهَا جَازَ؛ لِأَنَّهُ قُرْبَةٌ كَالتَّصَدُّقِ، كَذَا فِي التَّبْيِينِ. وَهَكَذَا فِي الْهِدَايَةِ وَالْكَافِي

اور اسے دراہم کے بدلے میں اس لئے نہیں بیچ سکتا کہ یہ دراہم اپنے اوپر یا اپنے عیال پر خرچ کرے گا.

اور صحیح قول کے مطابق (قربانی کا) گوشت بھی کھال کے حکم میں ہے حتی کہ اسے ایسی چیز کے عوض نہیں بیچا جائے جسے ہلاک کرنے کے بعد ہی اس سے نفع حاصل کیا جاتا ہو اور اگر اسے دراہم کے عوض اس لئے بیچا کہ اسے صدقہ کرے گا تو یہ جائز ہے کیونکہ یہ ایسی ہی قربۃ ہے جیسے صدقہ کرنا ایسا ہی”تبیین” میں ہے اور ایسا ہی “ہدایۃ اور کافی” میں ہے.

(الفتاوی الھندیۃ ج5 کتاب الاضحیۃ ص 301 مطبوعہ دارالفکر )

الدر المختار” میں ہے:«فإن بيع اللحم أو الجلد به) أي بمستهلك )أو بدراهم تصدق بثمنه»

پس اگر گوشت کو یا کھال کو ہلاک ہونے والی چیز کے عوض یا دراہم  کے عوض بیچا تو اس کا ثمن صدقہ کیا جائے گا.

(الدر المختار ج کتاب الاضحیۃ 648 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)

“البدائع و الصنائع” میں ہے:وَلَا يَحِلُّ بَيْعُ جِلْدِهَا وَشَحْمِهَا وَلَحْمِهَا وَأَطْرَافِهَا وَرَأْسِهَا وَصُوفِهَا وَشَعْرِهَا وَوَبَرِهَا وَلَبَنِهَا

اور بیچنا جائز نہیں ہے اس کی کھال کو اور اپنے اس کی چربی کو اور اس کے گوشت کو اور اس کے  کھروں کو  اور اس کے سر کو اور اس کی اون کو اور اس کے بالوں کو اور اس کے اون اور اس کے دودھ کو.

(البدائع و الصنائع ج5کتاب التضحیہ ص 81 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)

“الھدایۃ” میں ہے:واللحم بمنزلة الجلد في الصحيح، فلو باع الجلد أو اللحم بالدراهم أو بما لا ينتفع به إلا بعد استهلاكه تصدق بثمنه، لأن القربة انتقلت إلى بدله

اور صحیح قول کے مطابق (قربانی کا) گوشت بھی کھال کے حکم میں ہے تو اگر کھال یا گوشت کو دراھم کے کے عوض یا ایسی چیز کے عوض بیچا جسے ہلاک کرنے کے بعد ہی اس سے نفع حاصل کیا جاسکتا ہے تو اس(کھال یا گوشت ) کا ثمن صدقہ کیا جائے گا کیونکہ قربۃ (نیکی) اس کے بدل کی طرف منتقل ہوگئی ہے.

(الھدایۃ ج4 کتاب الاضحیۃ ص 360 مطبوعہ دارالاحیاء التراث العربی)

اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ و الرضوان “فتاوی رضویہ” فرماتے ہیں:کھال اگر اپنے خرچ میں لانے کی نیت سے داموں کو بیچی تو وہ دام تمام خیرات کرے،یعنی فقیر محتاج مصرف زکوٰۃ کو دے،سیدکو نہیں دے سکتا،اور اگر سیدکو دینے کی نیت سے بیچی تو وہ دام سید کو دے.

(فتاوی رضویہ ج 20 ص451 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور )

دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:(قربانی کی کھال کو بہ نیت تصدق فروخت کرنا)جائزہے کہ تصدق کے لئے بیچا یا مسجد کےصرف میں لانا دونوں قربت ہیں،اوریہاں وہی مقصود ہے.

مزید فرماتے ہیں: البتہ یہ ناجائز ہے کہ اپنے یااپنے اہل وعیال اور اغنیاکے صرف میں لانے کو گوشت یا کھال یا کسی جز کو بعوض ایسی اشیاء کے فروخت کرے جو استعمال میں خرچ ہوجائیں اور باقی نہ رہیں جس طرح روپیہ پیسہ یا کھانے پینے کی چیزیں یا تیل پھلیل وغیرہ کہ ان کے عوض اپنی نیت سے بیچنا تمول  ہے۔

( فتاوی رضویہ ج 20 ص466,467 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور ).

“بہار شریعت” میں ہے: اگر قربانی کی کھال کو روپے کے عوض میں  بیچا مگر اس لیے نہیں  کہ اوس کو اپنی ذات پر یا بال بچوں  پر صرف کرے گا بلکہ اس لیے کہ اوسے صدقہ کر دے گا تو جائز ہے. جیسا کہ آج کل اکثر لوگ کھال مدارس دینیہ میں  دیا کرتے ہیں  اور بعض مرتبہ وہاں  کھال بھیجنے میں  دقت ہوتی ہے اوسے بیچ کر روپیہ بھیج دیتے ہیں  یا کئی شخصوں  کو دینا ہوتا ہے اوسے بیچ کر دام ان فقرا پر تقسیم کر دیتے ہیں  یہ بیع جائز ہے اس میں  حرج نہیں  اور حدیث میں  جو اس کے بیچنے کی ممانعت آئی ہے اس سے مراد اپنے لیے بیچنا ہے.

گوشت کا بھی وہی حکم ہے جو چمڑے کا ہے کہ اس کو اگر ایسی چیز کے بدلے میں  بیچا جس کو ہلاک کر کے نفع حاصل کیا جائے تو صدقہ کر ے.

 قربانی کی چربی اور اوس کی سری، پائے اور اون اور دودھ جو ذبح کے بعد دوہا ہے ان سب کا وہی حکم ہے کہ اگر ایسی چیز اس کے عوض میں  لی جس کو ہلاک کر کے نفع حاصل کرے گا تو اوس کو صدقہ کر دے

(بہار شریعت ج3 قربانی کے جانور کا بیان ص 348 مکتبۃالمدینہ )

واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

مجیب :عبدہ المذنب ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی

نظرثانی:ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری المدنی زیدمجدہ

01/07/2021